اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بولان میں پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ تھر میں میرے سوا کسی نے آر او پلانٹ کا پانی پینے کی کوشش نہیں کی، میں جان بوجھ کر خاموش رہا ہوں۔

سپریم کورٹ نے بلوچستان کے علاقے بولان میں پانی کی قلت پر صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن اپنی تجاویز بنا کر دے کہ پانی کا مسئلہ کیسے ختم ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بلوچستان کے ضلع بولان میں صاف پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت میں بولان میں سوشل میڈیا پر وائرل آلودہ پانی کا ویڈیو کلپ چلایا گیا، جس کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حالت دیکھیں لوگوں کو زہر پلایا جارہا ہے اور استفسار کیا کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے کون آیا ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کی خشک سالی سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟

اس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے جواب دیا صوبے کے چیف سیکریٹری ایران کے دورے پر تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلی بلوچستان کو بلا لیتے ہیں، اس معاملے پر پہلے 12 کروڑ روپے اور بعد میں 40 کروڑ روپے خرچ ہوئے، پھر 80 لاکھ روپے مزید بھی خرچ ہوئے لیکن ایک بھی آر او پلانٹ نہیں لگا۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ تھر میں بھی کسی نے آر او پلانٹ کا پانی پینے کی کوشش نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ڈی سی او بولان سے استفسار کیا کہ کیا یہ ویڈیو جھوٹی ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ ویڈیو درست ہے، سارے مسائل کی وجہ علاقے میں پانی کی قلت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ پانی کو صاف کریں، حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ان لوگوں کو صاف پانی دیں، بھگناری کے مکین سامنے آئیں اور بولیں کہ ہماری حالت تھر سے بھی بدتر ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ علاقہ کوئٹہ سے کتنا دور ہے اور وہاں پانی کیسے پہنچایا جاسکتا ہے، جس پر بھگناری کے رہائشی نے جواب دیا کہ یہ علاقہ کوئٹہ سے 2 سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک ہی سڑک جاتی ہے جبکہ علاقے کی آبادی ایک لاکھ 20 ہزار سے کم ہو کر 73 ہزار رہ گئی ہے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت تھر کے تذکرے پر ایم این اے رمیش کمار کو روسٹرم پر طلب کیا اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو وزیراعلی سندھ سے تھر میں ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے کا کہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تھر میں اینگرو کو کنٹریکٹ دے دیا گیا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ وہاں ڈائریکٹر کی تنخواہیں کتنی ہیں، میں جان بوجھ کر خاموش رہا ہوں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے تھے کہ میرے دورے کے لیے تھر میں انتظامات کرائے گئے، بعد میں سامان واپس بھجوادیا گیا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تھر میں بھی ایک ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہونی چاہیے، عدالت عظمیٰ نے بولان کے مسئلے پر سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کر دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمیشن ہمیں تجاویز بنا کر دے کہ وہاں پانی کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے، پینے کا پانی صرف بولان بھگناری کا مسئلہ نہیں، میں وزیراعلی کو بلا لوں گا، اگر ساری کابینہ کو بلانا پڑا تو انہیں بھی بلاؤں گا۔

اس کے علاوہ عدالت نے بلوچستان میں آبپاشی اور دیگر محکموں کو کمیشن کو مکمل تعاون فراہم کرنے کا حکم بھی دیا جبکہ عدالت نے آر او پلانٹ لگا کر 2 ہفتوں میں رپورٹ بھی طلب کر لی۔

یہ بھی پڑھیں: ’میرے دورے کیلئے تھر میں انتظامات کروائے گئے، بعد میں سامان واپس بھجوادیا گیا؟‘

چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ بولان بھگناری میں پانی کی اسکیمیں منظور ہوئی تھیں، جس ہر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سارے فنڈز غیر ترقیاتی کاموں پر تنخواہوں میں چلے جاتے ہیں۔

ڈی سی او بولان نے عدالت کو بتایا کہ وہاں 2 ماہ میں آر او پلانٹ لگا رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے امان اللہ کنرانی کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ بلوچستان کے جن علاقوں میں پانی کا مسئلہ ہے وہاں کی فہرست بنا کر دیں۔

امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ میں ایک ہفتے میں رپورٹ بنا کر دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شاہ زین بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے موجودہ حالات پر چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے پر شکر گزار ہیں، بلوچستان میں ڈاکٹرز کی بھی قلت ہے، ایک سو 20 بستروں کے ہسپتال میں صرف ایک ڈاکٹر ہے جس کی وجہ سے لوگ بارانی علاقوں سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں