اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) کا انتظام سنبھالنے کے لیے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ کو 2 ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے پی کے ایل آئی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور اس کے علاوہ ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضا مندی لینے کا بھی حکم دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا پی کے ایل آئی میں 20 ارب اخراجات کا فرانزک آڈٹ کا حکم

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 22 ارب روپے خرچ کردیے، ساری رقم ایک ٹرسٹ کو دے دی گئی، 2 مرتبہ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہیے یا نہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کے انچارج ڈاکٹر سعید اختر سے مکالمہ کیا کہ 3 سال سے آپ 20 لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی، ہم نے گردوں کی 21 پیوندکاریاں کی ہیں جبکہ کینسر کے علاج بھی کیے گئے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور پر یہ جگر کی پیوندکاری تھی، گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہ بھی ہورے ہیں، یہاں آپریشن تھیٹر فعال نہیں۔

چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر سے کہا کہ آپ شہباز شریف کے بڑے قریب تھے، اگر آپ کہیں، تو آپ کو بتادوں گا کہ کیسے آپ شہباز شریف سے ملے تھے، ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لیے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا، کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے؟

اس پر بورڈ رکن نے جواب دیا کہ ٹرسٹ نے 16 کروڑ 50 لاکھ روپے فنڈز کا حصہ ڈالا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جون میں جگر کی ایک پیوندکاری بھی نہیں ہوسکی، جتنے پیسے پی کے ایل آئی پر خرچ کیے گئے اتنے پیسوں میں تو 5 ہسپتال بن جاتے، یہ کیس براہ راست نیب یا اینٹی کرپشن کو دینا چاہیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے کوئی کام نہیں ہورہا، ہم ایک کام کہتے ہیں، صوبائی حکومت سے وہ بھی نہیں ہوتا، صوبائی حکومت سست روی کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی کے ایل آئی کے بورڈ آف گورنر میں شہباز شریف کی شمولیت کا نوٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں صحت عامہ کے سارے کام رکے ہوئے ہیں، ابھی تک ہیلتھ کیئر بورڈ ہی نہیں بنا، بات کرو تو سرخیاں لگ جاتی ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے پی کے ایل آئی کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ کو 2 ہفتے میں فیصلہ کرنے، انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں