دہلی گینگ ریپ سانحے کو 6 برس ہوگئے، مقتول طالبہ کی ماں ’تبدیلی‘ کیلئے پراُمید

16 دسمبر 2018
بھارت میں 6 سال قبل ریپ کا نشانہ بننے والی طالبہ کی والدہ آشا سنگھ — فوٹو : اے ایف پی
بھارت میں 6 سال قبل ریپ کا نشانہ بننے والی طالبہ کی والدہ آشا سنگھ — فوٹو : اے ایف پی

بھارت میں 6 برس قبل گینگ ریپ میں ہلاک ہونے والی طالبہ کی والدہ کا کہنا ہے انہیں امید ہے کہ ملک میں جاری ’می ٹو ‘ مہم سے خواتین کے حالت بدل جائیں گے۔

خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آشا سنگھ نے کہا کہ ان کی بیٹی کی ہلاکت پر کیے گئے مظاہروں کی وجہ سے بھارتی خواتین اس موضوع پر آواز اٹھانے لگی ہیں۔

انہوں نے برطانوی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ’ بھارت میں جاری می ٹو مہم اس آگاہی کا نتیجہ ہے جس نے خواتین کو بہادر بنانے میں مدد کی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں تبدیلی کی فضا پروان چڑھ رہی ہے اور مزید خواتین خود کو مضبوط بنارہی ہیں، جب میں اتنی زیادہ خواتین کو جنسی ہراساں کیے جانے پر آواز اٹھاتے دیکھتی تو میں پُرامید محسوس کرتی ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ جو ہوا اس وجہ سے بھارت میں خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی گئی اور خواتین کی حفاظت کو گفتگو کا موضوع بنایا گیا۔

آشا سنگھ کا کہنا تھا کہ ’مرد سوچتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن دیکھیں اب سب کچھ کیسے بدل رہا ہے‘۔

مزیدپڑھیں : نانا پاٹیکر نے جنسی طور پر ہراساں کیا، تنوشری دتہ

ان کا کہنا تھا کہ ’ انہوں ( مردوں ) نے شاید ہی سوچا ہوگا کہ خواتین 10 یا 15 سال بعد بھی اس حوالے سے بولنا شروع ہوں گی‘۔

آشا سنگھ کی 23 سالہ بیٹی جیوتی سنگھ کو 6 سال قبل 16 دسمبر 2012 کو ایک چلتی بس میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایاگیا تھا،جس کے بعد انہیں سنگا پور کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 29 دسمبر 2012 کو چل بسی تھیں۔

پولیس نے اس کیس میں ملوث 6 ملزمان اکشے ٹھاکر، ونے شرما، پون گپتا، مکیش سنگھ، رام سنگ اور محمد افروز کو گرفتار کر لیا تھا۔

کم عمر ہونے کی وجہ سے محمد افروز کو تین سالہ اصلاحی قید با مشقت سنائی گئی تھی اور اسے رہا کر دیا گیا تھا جبکہ رام سنگھ نے دوران قید مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔

آشا سنگھ کی بیٹی کی ہلاکت کے واقعے کے بعد بھارت کے مختلف شہروں میں شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے تجبکہ اس واقعے نے عالمی توجہ بھی حاصل کی تھی اور بھارتی حکام کو جنسی جرائم سے متعلق قوانین کو سخت بنانے پر مجبور کیا تھا۔

خیال رہے کہ رواں برس ستمبر میں می ٹو مہم نے امریکا کی فلم انڈسٹری میں بھونچال لانے کے ایک سال بعد بھارت میں اس وقت زور پکڑا جب بھارتی اداکارہ تنوشری دتہ نے نانا پاٹیکر پر الزام لگایا کہ انہوں نے 10 بر س قبل فلم کی شوٹنگ کے دوران ہراساں کیا تھا۔

اس کے بعد سے کئی خواتین کی جانب سے نامور صحافیوں، فلمی شخصیات، کامیڈینز ، وکلا اور سیاست دانوں پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت: 4 سالہ لڑکی کا ریپ، مجرم کو سزائے موت

قانونی اصلاحات کے باوجود بھارت میں خواتین کے تحفظ میں بہت کم بہتری آئی ہے جہاں صرف 2016 میں ہی ریپ کے 40 ہزار مقدمات درج ہوئے۔

صرف نئی دہلی میں 2016 میں ایک ہزار 2 سو 70 مقدمات درج ہوئے تھے یعنی ایک دن میں تقریباً 6 مقدمات درج کیے گئے۔

آشا سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار اتنے زیادہ نہیں ہوتے اگر بھارت نے اپنے سست عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ان کی بیٹی کے مجرم سزائے موت سنائے جانے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ آج میری بیٹی پر حملے کے 6 سال بعد آج بھی اس کے مجرم زندہ ہیں‘۔

واضح رہے کہ بھارت کی مقامی عدالت نے گینگ ریپ کے ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ملزمان کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائیں برقرار رکھی تھیں۔

آشا سنگھ نے کہا کہ ’ اس سے معاشرے کو ایک غلط پیغام جاتا ہے، آج چھوٹی چھوٹی بچیوں پر حملہ کیا جاتا ہے کیونکہ کسی کو قانون کا ڈر نہیں ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں