عالمی ماحولیاتی کانفرنس ... نشستن گفتن برخاستن

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2019
جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کریں گے، ایسی کانفرنسوں سے کچھ خاص نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کریں گے، ایسی کانفرنسوں سے کچھ خاص نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

پولینڈ کے شہر کاٹوویسا میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچ چکی۔ اگر اس کانفرنس کا خلاصہ ہم بیان کرنا چاہیں تو وہ صرف 3 لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے ’نشستن، گفتن، برخاستن۔۔۔‘ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔

کثیر سرمائے سے منعقد کی جانے والی اس عالمی سطح کی کانفرنس میں 200 ممالک کے اعلیٰ وفود موجود تھے اور دنیا بہت پُرامید تھی کہ یقیناً کچھ ایسے ٹھوس فیصلے سامنے آسکیں گے جو دنیا کے ماحول اور آب و ہوا کی تبدیلی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے لیکن افسوس کہ دنیا کے ہاتھ کچھ نہ آیا سوائے ایک اور وعدے کے۔

2015ء میں کیے جانے والے پیرس معاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے توقع کی جارہی تھی کہ ایک رول بک (Rule Book) پر اتفاق کرلیا جائے گا جس کے تحت یہ واضح ہوجائے گا کہ کن ممالک کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی۔ غریب متاثرہ ممالک کی مدد کیسے کی جائے گی اور ذمہ دار ممالک اپنا کیا کس طرح بھگتیں گے مگر ایسا کچھ بھی طے ہو نہ سکا اور بات 2020ء تک ٹل گئی۔

کانفرنس کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب سعودی عرب، کویت اور روس نے بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا میں تبدیلی (IPCC) کی رپورٹ مسترد کردی۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے سے منسلک سیکڑوں اداروں کے ہزاروں سائنسدانوں اور ماہرین نے شب و روز ایک کرکے تیار کی تھی۔

پولینڈ کے شہر کاٹوویسا میں منعقدہ کانفرنس میں 200 ممالک کے اعلیٰ وفود موجود تھے
پولینڈ کے شہر کاٹوویسا میں منعقدہ کانفرنس میں 200 ممالک کے اعلیٰ وفود موجود تھے

رپورٹ کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے کرہءِ ارض کا درجہءِ حرارت بڑھ رہا ہے اور اگر عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 درجے سینٹی گریڈ بھی بڑھ جاتا ہے تو کرہءِ ارض پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ دنیا جس بے ڈھنگی چال سے چل رہی ہے اس حساب سے کچھ بعید نہیں کہ اس صدی کے اختتام تک ہم زمین کا درجہءِ حرارت 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا بیٹھیں۔

یہ اضافہ آب و ہوا میں ایسی تبدیلیاں لے کر آئے گا کہ زمین پر حیات کا پنپنا ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا اگر درجہءِ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک روکنا ہے تو اگلے 12 سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 45 فیصد کمی کرنا ہوگی۔ بس یہی بات ان ممالک کو گراں گزری کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی کا مطلب معیشت کے روایتی ڈھانچے میں بھی تبدیلی ہے۔

ایسی صنعتوں کو محدود کرنا پڑے گا جو یہ نقصاندہ گیسیں خارج کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں ممالک نے یکسر اس رپورٹ کو مسترد کردیا اور دیگر ترقی پزیر ممالک نے بھی اس رپورٹ کے مندرجات پر اپنے اختلافات کا اظہار کا۔ امریکا پہلے ہی پیرس معاہدے سے باہر نکل چکا ہے۔ برازیل کے نومنتخب وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ آب و ہوا میں تبدیلیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ مارکسوں کا ایک ٹولہ ہے جو دنیا کو گمراہ کررہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ برازیل، سعودی عرب ہو یا کویت، ان سب کے پیچھے امریکا ہی کا ہاتھ ہے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسی دوران امریکا نے ایک بہت بڑا پروگرام بھی منعقد کیا جس میں واضح طور پر اعلان کیا کہ اس کی صنعتیں کوئلے پر چل رہی ہیں اور وہ کسی قیمت پر کوئلے کا استعمال ترک نہیں کرے گا گویا اس نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ ایسے کسی بھی معاہدے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک کرہءِ ارض کا درجہءِ حرارت بڑھانے میں کوئلے کا بہت اہم کردار ہے کیونکہ اسی سے مضر گیسیں خارج ہوتی ہیں جو تپش کو بڑھا دیتی ہیں۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری جو اس کانفرنس میں موجود تھے ان کا کہنا ہے 200 ممالک کا کسی ایک نکتے پر اتفاق ایک مشکل بات ہے۔ جو کچھ بھی طے کیا گیا ہے وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔ دنیا ہمیشہ سے 2 حصوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ بلاک ہے جو ترقی یافتہ ممالک کا ہے جو دراصل اس ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ دوسرا بلاک پاکستان جیسے ممالک کا ہے جن کا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج تو بہت کم ہے مگر آب و ہوا میں تبدیلی کے نقصانات برداشت کرنے میں یہ ممالک سرِفہرست ہیں۔ دونوں بلاکوں کے درمیان کشمکش جاری ہے۔

کمزور بلاک کا کہنا ہے کہ ہمیں نقصانات سے نمٹنے کے لیے سرمایہ بھی دیا جائے اور ٹیکنالوجی بھی دی جائے۔ یہ درست ہے کہ رول بک میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی مگر کم از کم اس نکتے پر اتفاق ہوا کہ 2020ء تک یہ طے کرلیا جائے گا کہ ترقی یافتہ ممالک کیا کریں گے اور کتنی امداد مہیا کریں گے۔

زرعی ماہر اور پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے سربراہ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کریں گے، ایسی کانفرنسوں سے کچھ خاص نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

اصل بحران انٹلیکچوئل سطح پر ہونے جارہا ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے سائنسی تحقیق کے لیے تعلیمی اداروں کو دی جانے والی امداد بند کردی ہے، ناسا کو بھی اب کوئی فنڈ نہیں ملے گا لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ سائنسی تحقیق میں سرمایہ کاری کرے کیونکہ اسے آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جو معلومات اور اعداد و شمار درکار ہیں وہ تحقیق کے بغیر نہیں مل سکیں گے۔

انہوں نے مثال دی کہ ہم ہمیشہ ’جرمن واچ انڈیکس‘ کی تحقیق پر انحصار کرتے ہیں کہ پاکستان کا نمبر ماحولیاتی نقصانات برداشت کرنے والوں میں کون سا ہے۔ مثلاً ہمیں اس سال 8ویں نمبر پر دکھایا گیا ہے۔ ان ممالک میں مالدیپ اور فجی جیسے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں جن کی آبادی کو ملالیا جائے تب بھی ان سے زیادہ صرف کراچی کی آبادی ہوگی۔ ہمارا ان ممالک کے ساتھ موازنہ مناسب نہیں ہے، اگر ان ممالک کو ہٹا دیا جائے تو ہمارا نمبر اور اوپر آجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی تحقیق کی ضرورت ہے تبھی ہم کچھ بہتر فیصلے کرسکیں گے۔

ماہرین متفق ہیں کہ اس کانفرنس میں عالمی سطح پر تو کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آسکی مگر پاکستان کی اس کانفرنس میں کارکردگی بہتر رہی۔ وزیرِاعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اپنے 8 رکنی وفد کے ساتھ اس کانفرنس میں موجود تھے۔ انہیں (پاکستان) اگلی کانفرنس کے لیے نائب صدر مقرر کرلیا گیا ہے۔ اسے پاکستان کی بہترین ڈپلومیسی قرار دیا جارہا ہے۔

پاکستان کی اس کانفرنس میں کارکردگی بہتر رہی
پاکستان کی اس کانفرنس میں کارکردگی بہتر رہی

ملک اسلم نے کانفرنس میں پاکستان کے حوالے سے 2 منصوبے پیش کیے۔ جس میں 10 ارب درختوں کی شجر کاری اور کراچی میں ماحول دوست ٹرانسپورٹ بی آر ٹی ایس (Bus Rapid Transport System) کے منصوبے کی تفصیل بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ 2.76 ملین ٹن گیسوں کے اخراج میں کمی کرے گا کیونکہ اس منصوبے کے تحت چلنے والی 200 بسیں میتھین گیس سے چلائی جائیں گی جو جانوروں کے فضلے سے پیدا کی جائے گی۔ یہ منصوبہ ہر لحاظ سے ماحول دوست ہوگا۔

یہ بتاتے چلیں کہ پاکستان پیرس معاہدے میں یہ طے کرچکا ہے کہ وہ 2030ء تک اپنے کاربن کے اخراج میں 20 فیصد کٹوتی کرلے گا اور اس حوالے سے بہت سے ماہرین معترض ہیں۔ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے کیونکہ اس سے ہماری پیداواری شرح کم ہوجائے گی اور صنعتوں کو محدود کرنا پڑے گا۔ ملک کا معاشی ڈھانچہ پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے اور اس وعدے پر عمل کرنے سے مزید انتشار پھیلے گا۔

ایک دلچسپ بات اس کانفرنس میں پاکستان کے حوالے سے اس وقت دیکھنے میں آئی جب ملک امین اسلم نے کانفرنس میں موجود مشہور اداکار آرنلڈ شیوازنیگر کو پاکستان آنے کی دعوت دی تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور اجاگر کریں۔

آرنلڈ شیوازنیگر 2003ء سے 2011ء تک کیلی فورنیا کے گورنر بھی رہے اور اب وہ آب و ہوا میں تبدیلی کے خلاف مؤثر آواز بن چکے ہیں۔ آرنلڈ شیوازنیگر نے ’ٹرمینیٹر‘ فلموں کی سیریز میں کام کیا اور بہت مشہور ہوئے۔ آرنلڈ کا کہنا تھا کہ کاش وہ ’ٹرمینیٹر‘ کے کردار ’سائی بورگ‘ طرح ماضی میں جاسکتے اور خام ایندھن کے استعمال کو روک سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے بڑا شیطان روایتی ایندھن یعنی یہ کوئلہ، پیٹرول اور قدرتی گیس ہے‘۔

کانفرنس کے لیے منتخب کی جانے والی جگہ کو بھی موضوع بحث بنایا گیا کہ یہ جس شہر میں منعقد ہورہی ہے وہ کوئلے کی کان کنی کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس شہر میں کان کنی سے وابستہ 90 ہزار کارکن رہائش پزیر ہیں۔ کوئلے کی کان کنی اور کوئلے کا بطور ایندھن استعمال ہی ماہرین کے نزدیک آب و ہوا میں تبدیلی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔

اس کے علاوہ اس کانفرنس میں ایک نہایت منفرد خیال سامنے آیا۔ یونائیٹڈ نیشن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار انوائرنمنٹ اینڈ ہیومن سیکیورٹی کے ڈائریکٹر ڈرک میسنر کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے دنیا میں قدرتی آفات کی شدت کو بہت بڑھادیا ہے مثلاً سمندری طوفان، سیلاب اور خشک سالی، جس کے باعث لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہیں اور یہ سارا کیا دھرا ترقی یافتہ ممالک کا ہے لہٰذا ایسے غریب اور مجبور لوگوں کو ’کلائمیٹ پاسپورٹ‘ جاری کردینے چاہئیں تاکہ وہ متاثرہ علاقوں سے ترقی یافتہ ممالک میں جاکر سکون اور عزت سے رہ سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلی جنگِ عظیم میں جب 5 لاکھ لوگ اپنے ہی ملکوں میں خانماں برباد ہوگئے تھے تو انہیں Nansen Passport نامی دستاویز جاری کی گئی تھی تاکہ وہ جہاں چاہیں رہ سکیں تا وقتیکہ وہ کسی ملک کی شہریت حاصل کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ لوگوں کی ہجرت کی بہت سی جوہات ہوسکتی ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسے کلائمیٹ پاسپورٹ سے حل کیا جاسکتا ہے، اس طرح ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔

اس کانفرنس کے نتائج سے مایوسی سہی مگر اب دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک کی نظریں سال 2020ء پر جمی ہیں کہ شاید انہیں انصاف پر مبنی کوئی متوازن معاہدہ میسر آسکے۔ ایسا معاہدہ جس سے کرہءِ ارض پر موجود حیات کے سر پر لٹکی تلوار ہٹ سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں