دبئی: اقوامِ متحدہ سفیر برائے یمن مارٹن گرفتھس نے حکومت کی حمایتی فورسز اور باغیوں کو بحیرہ احمر کے ساحلی شہر حدیدہ میں جنگ بندی کی پاسداری کرنے کے لیے زور دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سفیر مارٹن گرفتھس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ دونوں جماعتیں اسٹاک ہوم معاہدے کی پاسداری کریں گی اور ان پر فوری عمل پیرا ہوں گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ یمن میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور مبینہ طور پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر حدیدہ معاہدے کی وقت پر عمل در آمد کے لیے کام کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ مقامیوں کے مطابق گزشتہ روز حدیدہ کے نواحی علاقوں میں فضائی حملوں کے بعد خونریز جھڑپ سامنے آئی تھی۔

مزید پڑھیں: یمن کی حکومت اور حوثی باغی، حدیدہ میں جنگ بندی پر رضا مند

اقوامِ متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرس نے خبردار کیا کہ اگر دونوں فریقین میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے امن معاہدہ عمل میں نہیں آیا تو 2019 ملک کے لیے ’انتہائی برے حالات‘ پیش کرے گا۔

دونوں اطراف سے جمعے کے روز عمل میں آنے والے جنگ بندی معاہدے کو توڑنے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔

ہفتے کی رات ہونے والی جھڑپ اور فضائی حملوں میں 22 حوثی باغیوں اور 7 حکومتی فوجی ہلاک ہوئے تھے، جس کی تعداد سے متعلق کسی دیگر آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکی۔

امن معاہدہ

واضح رہے کہ 14 دسمبر کو یمن کی حریف جماعتوں نے حوثیوں کے زیر اثر ساحلی شہر حدیدہ کے لیے جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کیا تھا اور شہر سے اپنی افواج نکالنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔

اقوام متحدہ کے سفیر مارٹن گرفٹس کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین بندرگاہ، جو یمن کی اہم تجارتی درآمدات اور امداد کے لیے مرکزی داخلی راستہ ہے، وہاں سے ’دنوں‘ میں انخلا کریں گے، اس کے بعد حدیدہ شہر سے انخلا کا عمل ہوگا جہاں اتحادی افواج کی بڑی تعداد موجود ہے۔

اس کے علاوہ حوثی عسکریت پسند اناج کے لیے استعمال ہونے والی صالف بندرگاہ اور تیل کے لیے استعمال ہونے والی راس ایسا ٹرمنل سے بھی انخلا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یمن بچوں کیلئے جہنم بن گیا ہے، اقوام متحدہ

معاہدے کے مطابق دونوں فریقین دوبارہ تعیناتی تعاون کمیٹی جنگ بندی اور انخلا کے عمل کو دیکھیں گے اور ہفتہ وار اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو رپورٹ بھی فراہم کریں گے۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی نگراں ادارے حدیدہ شہر سمیت تینوں بندرگاہوں پر تعینات ہوں گے اور جنگ بندی کے 21 روز کے اندر تمام مسلح فورسز کو واپس جانا ہوگا۔

یاد رہے کہ یمن میں جاری تنازع میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور جزیزہ نما عرب کا یہ سب سے غریب ملک قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 17 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں