علی اعجاز: ایک درویش صفت اداکار

علی اعجاز: ایک درویش صفت اداکار

خرم سہیل

ایک ایسا فنکار، جس کے پیر زمین پر تھے لیکن شہرت آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ پاکستانی شوبز میں معدودے چند ہی ایسے فنکار ہیں، جنہیں بیک وقت ٹیلی وژن اور فلم کے شعبوں میں کامیابی ملی، ان میں سے ایک علی اعجاز تھے۔

پاکستانی ڈراما اور فلم کی تاریخ میں ان کا نام کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ پہلی مرتبہ جب ان کی اداکاری کی شہرت گھر کی دہلیز پر پہنچی تو گھر والوں نے انہیں گھر سے بے گھر کردیا۔ یہ رات گئے بارش کے موسم میں اپنے گھر کے باہر دروازے کے سامنے بیٹھے رو رہے تھے، ایک طرف گھر کا سکون تھا، دوسری طرف دنیا کو تسخیر کرنے کا جنون، انہوں نے جنون کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا، آخرکار تواتر سے کامیابیاں اسی گھر میں باعزت واپسی کا باعث ہوئیں۔

علی اعجاز 1941ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ قدرت نے ان کے لیے شوبز میں کام کرنا لکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد وہ بطور بینکر اپنے کیریئر کی شروعات کرتے ہیں، لیکن کچھ عرصے میں اس کام سے ان کا دل اُچاٹ ہوجاتا ہے۔ وجہ یہی تھی کہ وہ ایک اداکار کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال انہیں اس لیے آیا کیونکہ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف ان کے بچپن کے دوست تھے۔

علی اعجاز
علی اعجاز

منور ظریف اور ان کے بڑے بھائی ظریف، دونوں فلمی صنعت میں اپنی اداکاری کا لوہا منوا چکے تھے، علی اعجاز چونکہ منور ظریف کے گہرے دوست تھے، یہی دوستی ان کے اداکار بننے کی پہلی وجہ ثابت ہوئی۔ یہ الگ بات ہے، زندگی نے دونوں کو ایک ساتھ کام کرنے کا موقع نہ دیا لیکن یہ اعزاز بھی صرف علی اعجاز کے حصے میں ہی آیا کہ جب منور ظریف کا انتقال ہوا تو فلمی صنعت میں ان کے خلا کو پُر کرنے کے لیے یہی دوست آگے آیا اور اپنے کام سے دوستی کا دم بھرا۔

انہوں نے فنی کیریئر کی شروعات ریڈیو پاکستان لاہور سے کی۔ 60ء کی دہائی میں اپنی آواز کے ذریعے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا، یہی وہ زمانہ ہے جب لاہور میں اسٹیج تھیٹر بھی مقبولیت کی منازل طے کر رہا تھا، اس لیے خود کو اسٹیج کے لیے بھی وقف کیا۔ الحمرا آرٹس کونسل کے اسٹیج پر ہونے والے ڈراموں کا لازمی حصہ بنے۔ ان دونوں میڈیم کے لیے کافی عرصے تک کام کرتے رہے مگر انہیں بطور اداکار زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، لیکن یہ دلبرداشتہ نہ ہوئے اور محنت جاری رکھی۔

ریڈیو کے مائیکروفون سے اپنی آواز کے ذریعے سامعین کے دلوں کو تسخیر کیا اور تھیٹر کے ڈرامے سے حاضرین کے دل موہ لینے کی جدوجہد میں کامیابی کی دیوی ذرا دیر سے ان پر مہربان ہوئی، اور ابھی ان کو مزید کئی مراحل طے کرنے تھے۔ قسمت ایک کے بعد دوسرا موقع انہی فراہم کر رہی تھی، انہوں نے زندگی میں کسی بھی موڑ پر ہمت نہ ہاری اور آخرکار یہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے۔

فلم سالا صاحب کا پوسٹر
فلم سالا صاحب کا پوسٹر

پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات لاہور سے شروع ہوئیں، تو اس میں کام کرنے کے لیے ریڈیو اور تھیٹر کے نمایاں لوگ آگے آئے، انہی میں سے ایک علی اعجاز بھی تھے۔ 1964ء میں اطہر شاہ خان جیدی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’لاکھوں میں تین‘ میں 3 مرکزی کرداروں میں سے ایک کردار نبھایا اور یوں پہلی مرتبہ عوامی شہرت کے دروازے ان پر پوری طرح کھل سکے۔ اس ڈرامے میں ان کا تکیہ کلام ’ایوری باڈی کو چائے کی صلح مارتا ہے‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ تکیہ کلام ہر خاص و عام میں زبان زد عام ہوا۔ یہی وہ دروازہ تھا، جہاں سے گزر کر انہیں فلم کی دنیا میں بھی داخل ہونا تھا۔

اس ڈرامے کی شہرت فلمی نگری میں پہنچی تو اُس وقت کے معروف اور مصروف ترین ہدایت کار شباب کیرانوی نے علی اعجاز کی اداکاری کے حقیقی جوہر محسوس کیے۔ رفیع خاور عرف ننھا کے ذریعے علی اعجاز کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ اس ملاقات میں ریڈیو، تھیٹر، ٹیلی وژن کے شعبوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے علی اعجاز کو فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی، جس کو انہوں نے قبول کرلیا۔

فلم نکاح کا پوسٹر
فلم نکاح کا پوسٹر

فلم صاحب جی کا پوسٹر
فلم صاحب جی کا پوسٹر

اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا، منور ظریف کے بچپن کا دوست، ذاتی حیثیت میں ایک شاندار اداکار کے طور پر اپنا نام پیدا کرے گا اور اس کو پیغام پہنچانے والا فنکار ننھا ہی وہ اداکار ہوگا جس کے ساتھ اس کی جوڑی بنے گی، وہ دونوں مقبولیت کی بلندیوں کو چھولیں گے۔ قسمت ان کے لیے ایک ایک کرکے یہ تمام فیصلے کر رہی تھی۔

علی اعجاز کی زندگی میں 60ء کی دہائی بہت اہم تھی، وہ نوجوان تھے، خواب دیکھتے تھے، وہ خود کو کسی میز کرسی پر بیٹھ کر فائلوں میں ضایع کرنے کے بجائے زندگی کی شطرنج پر اپنی مرضی کی چال چلنا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب ہوئے۔

1967ء میں اپنے کیریئر کی پہلی فلم ’انسانیت‘ میں اداکاری کی، جس کے ہدایت کار شباب کیرانوی تھے، اس فلم میں پاکستان کے تمام نمایاں اداکار کام کر رہے تھے، جن میں زیبا، وحید مراد، سلطان راہی، سلمیٰ ممتاز، فردوس، طارق عزیز، ننھا اور دیگر شامل تھے۔ اس فلم میں ان کا کردار پٹیالہ سے تعلق رکھنے والے تاجر کا تھا، اس کردار میں انہوں نے اتنی جان ڈال دی کہ سیٹ پر موجود تمام افراد ان سے اسی انداز میں بات کرنے لگے تھے۔ یہی وہ فلم ہے، جس میں انہوں نے ایک مزاحیہ گیت میں احمد رشدی اور آئرین پروین کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگایا لیکن یہ ان کے پورے کیرئیر کا ایک ہی گیت ہے۔ اس فلم کے ذریعے وہ فلم نگری کے شب وروزسے بھی واقف رہنے لگے۔

وہ ابھی تک یہ پوری مقبولیت نہ سمیٹ سکے تھے۔ فلم اور ٹیلی وژن ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ معروف صحافی عارف وقار کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے ’دبئی چلو‘ کو جب حد درجہ شہرت مل گئی تو اسی خیال کو لے کر فلم بنائی گئی، جس میں علی اعجاز نے مرکزی کردار نبھایا، اس فلم کی مقبولیت سے ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 1979ء میں یہ فلم ریلیز ہوئی جس میں اس وقت کے بہت اہم اداکاروں نے کام کیا، جن میں ممتاز، دردانہ رحمان، اقبال حسن، اسلم پرویز، نغمہ، علاؤالدین، قوی اور ننھا شامل تھے۔

یہاں سے ان کا اصل فلمی کیریئر شروع ہوتا ہے۔ ان کی مزاحیہ جوڑی معروف اداکار ننھا کے ساتھ مقبول ہوئی، جبکہ بطور ہیروئن ممتاز کا نام ان کے ساتھ وابستہ ہوا، پھر ان دونوں جوڑیوں نے 80ء کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں راج کیا اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ’سالا صاحب‘ جیسی فلم اس حسین دور کی یادگار ہے جس کے نقش فلم بینوں کے دلوں پر مدتوں رہیں گے۔

فلم سوہرا تے جوائی کا پوسٹر
فلم سوہرا تے جوائی کا پوسٹر
اپشتو فلم خانو دادا کا پوسٹر
اپشتو فلم خانو دادا کا پوسٹر

علی اعجاز نے تقریباً 106 میں فلموں میں کام کیا، جن میں پنجابی فلموں کی تعداد 84 ہے جبکہ 22 اردو فلمیں تھیں۔ ان کے حصے میں ایک پشتو فلم بھی آئی، جس کا نام ’خانو دادا‘ تھا۔ ان کی چند نمایاں اردو اور پنجابی فلموں کی فہرست درج ذیل ہے۔

انسانیت (1967)

دلبرجانی ۔یملا جٹ (1969)

سیاں (1970)

ٹائیگر گینگ (1971)

سجن دشمن (1972)

لیلیٰ مجنوں (1973)

وحشی جٹ (1975)

وارنٹ (1976)

دبئی چلو (1979)

سوراتے جوائی (1980)

سالا صاحب، چاچا بھتیجا، مولا جٹ تے نوری نتھ (1981)

مرزا جٹ، نوکر تے مالک (1982)

صاحب جی، سسرال چلو، سونا چاندی (1983)

عشق پیچا (1984)

نکاح، چوڑیاں، دھی رانی (1985)

جوڑا (1986)

چور مچائے شور (1996)

وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ پاکستانی سینما میں کمرشل کے علاوہ آرٹ فلمیں بھی بنیں، اس کے لیے ہمیشہ کوشاں بھی رہے۔ اس سلسلے میں معروف ہدایت کار سید نور ان سے رابطے میں تھے، دونوں کے ملاپ سے ایک فلم بننے کا معاملہ بھی طے ہوا تھا مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔

وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ وہ فلمی ہیرو نہیں ہیں، مگر قسمت نے انہیں ہیرو بھی بنا دیا لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ اداکارہ ممتاز کے ساتھ کیے گئے کام کی وجہ سے پنجابی سینما کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ممتاز اور علی اعجاز نے فلمی رومانوی جوڑی کی جو تصویر پیش کی، وہ آج بھی دیکھنے میں حسین اور جمالیات سے مزین ہے۔ فلم سالا صاحب کے گانے ’میں تے میرا دلبر جانی‘ اور ’وے اک تیرا پیار مینوں ملیا‘ ان دونوں پر فلمائے گئے۔ یہ مقبول گانے بھی دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی فنی تازگی آج بھی برقرار ہے۔

علی اعجاز کی پیشہ ورانہ زندگی کا دوسرا دور ٹیلی وژن کا ہے۔ یہ زیرک اور باشعور اداکار تھے، انہوں نے فلم کی شہرت پر اپنے قدم روکے نہیں بلکہ ٹیلی وژن کے لیے بھی وقت نکال کر کام کرتے رہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شہرت کا دوسرا دور ٹیلی وژن ہی بنا۔ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے حلقے تک ان کی رسائی ہوگئی۔ بھارت سمیت دیگر کئی ممالک میں بھی ان کی شہرت کا چرچا رہا۔ ٹیلی وژن میں ان کی شہرت کا بڑا حوالہ جو ڈرامے بنے ان میں لاکھوں میں تین، دبئی چلو، شیدا ٹلی، خواجہ اینڈ سنز، کھوجی اور شب دیگ شامل ہیں۔

عطا الحق قاسمی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’شب دیگ‘ میں علی اعجاز نے معروف اداکار سہیل اصغر کے ساتھ کام کیا اور مسٹر باجوہ کے کردارمیں خود کو امر کردیا، اس کردار میں ایک ایسا شخص دکھایا گیا ہے جس کا پس منظر دیسی ہے مگر وہ ہر وقت خود کو ولایتی ثابت کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ظاہر و باطن کے تضاد کا مظہر یہ ڈراما جو ہمارے معاشرے کی منافقت اورمصنوعی طرزِ زندگی کی آج بھی عکاسی کرتا ہے، اس میں مسٹرباجوہ کا کردار علی اعجاز کو ٹیلی وژن کی دنیا میں بھولنے نہیں دے گا۔

حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1993ء میں تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے کے علاوہ، انہیں متعدد نگار ایوارڈز بھی ملے۔ انہوں نے اپنے نام پر ایک فلاحی ادارہ بھی قائم کیا جس کے ذریعے سیکڑوں بے گھر افراد کو چھت مہیا کی گئی۔ ان کے دل کی نرماہٹ نے انہیں ہمیشہ محبت کرنے والا انسان بنائے رکھا۔ وہ جتنے بڑے اداکار تھے، اس سے بھی کہیں زیادہ انکسار پسند انسان تھے، جس کے دل میں انسانیت کا درد تھا۔ ایک درویش صفت اور درد مند دل رکھنے والے اداکار کی یادیں ان کے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ قائم رہیں گی۔ 5 دہائیوں تک شوبز میں کام کرنے والے اداکار کی زندگی بھر کی جمع پونجی یہی نام اور ساکھ ہے جس کو کمانا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے۔


بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔