سعودی فوجی اتحاد کسی ایک ملک یا مسلک کے خلاف نہیں، راحیل شریف

جنرل ریٹائرڈ راحیل کی شریف چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ہمراہ لی گئی تصویر — فوٹو: سینیٹ سیکریٹریٹ
جنرل ریٹائرڈ راحیل کی شریف چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ہمراہ لی گئی تصویر — فوٹو: سینیٹ سیکریٹریٹ

سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں 41 ملکی فوجی اتحاد کا قیام کسی ایک ملک یا مسلک کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر قیادت سینیٹ کے وفد نے انسداد دہشت گردی کے لیے قائم اسلامی فوجی اتحاد (آئی ایم سی ٹی سی) کے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔

سینیٹ کے وفد کا اتحاد کے کمانڈر اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور نائب کمانڈر جنرل عبدالرحمٰن نے استقبال کیا۔

راحیل شریف کا سینیٹر کے ہمراہ گراپ — فوٹو: سینیٹ سیکریٹریٹ
راحیل شریف کا سینیٹر کے ہمراہ گراپ — فوٹو: سینیٹ سیکریٹریٹ

سینیٹ سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق دورے کے دوران سابق آرمی چیف نے سینیٹ کے وفد کو فوجی اتحاد کی کارکردگی اور اغراض و مقاصد سے متعلق آگاہ کیا۔

راحیل شریف نے کہا کہ ’اسلامی فوجی اتحاد کسی ایک ملک، قوم یا مسلک کے خلاف کارروائی کے لیے نہیں بنایا گیا۔‘

سینیٹ سیکریٹریٹ کے بیان میں راحیل شریف کے حوالے سے کہا کہ ’ادارے کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا مقابلہ اور اسے ختم کرنا ہے۔‘

ملاقات کے دوران سینیٹرز نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور حکومت کے عزم اور کوششوں کو سراہا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامی فوجی اتحاد کی ویب سائٹ متعارف

سعودی فوجی اتحاد سے متعلق خدشات

راحیل شریف کی سعودی فوجی اتحاد کے سربراہ کے طور پر گزشتہ سال تقرری نے اس بحث کو جنم دیا تھا کہ اس اقدام کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کیا اثر پڑے گا اور کیا اس کی پارلیمنٹ سے منظوری لی گئی تھی۔

41 ممالک کے فوجی اتحاد سے متعلق ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ مسلم ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون کا پلیٹ فارم ہوگا جس میں ٹریننگ، سامان اور فوجی دستے شامل ہوں گے جبکہ اسلامی اسکالرز کے تعاون سے انسداد دہشت گردی کے لیے بیانیہ تشکیل دیا جائے گا۔

مختلف طبقات کی طرف سے اتحاد کے خدوخال کے حوالے سے خدشات سامنے آئے تھے اور اس کا یمن تنازع سے متعلق 2015 میں پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد پر کیا اثر ہوگا، جس میں قانون سازوں کی جانب سے تنازع کا پرامن حل نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس وقت کے وزیر دفاع خرم دستگیر نے بعد ازاں سینیٹ کو بتایا تھا کہ اتحاد ’غیر متعلقہ فوجی آپریشنز‘ میں حصہ نہیں لے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں