وزارت داخلہ نے سینیٹ کو بتایا ہے کہ رواں سال گزشتہ 10 ماہ میں اے ٹی ایم مشین اور انٹرنیٹ بینکنگ فنڈ ٹرانسفرز کے زریعے غیر قانونی ٹرانزیکشنز کی 1244 شکایات موصول ہوئی ہیں۔

ان 1244 شکایات میں سے 524 کو انکوائری میں تبدیل کیا گیا اور 35 پر ایف آئی آر درج کی گئیں جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں 463 کی تصدیق ہوئی اور 76 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔

وزارت نے آزاد سینیٹر رانا محمود کے سوال کے جواب میں یہ معلومات انہیں فراہم کیں۔

مزید پڑھیں: اے ٹی ایم فراڈ: 559 بینک اکاؤنٹس سے 1 کروڑ روپے کی چوری

رانا محمود نے ایف آئی اے میں زیر التوا شکایات اور حکومت کی جانب سے غیر قانونی ٹرانزیکشنز کی روک تھام کے لیے بینک کے ساتھ مل کر اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے بھی سوال کیا تھا۔

تحریری جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں 1244 شکایات درج کی گئیں جن میں سے 222 زیر التوا ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان تمام کمرشل، قومی اور غیر ملکی بینکوں کا ریگولیٹری ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ہی ان معاملات پر بہتر بتاسکتا ہے، ایف آئی اے ایک تحقیقاتی ادارہ ہے اور وہ مختلف بینک صارفین کی شکایت پر قانونی کارروائی کرتا ہے۔

واضح رہے کہ سائبر سیکیورٹی عالمی معاشی نظام کے منتظمین کے لیے بڑا خدشہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اے ٹی ایم فراڈ سے بچنے کے 6 طریقے

گزشتہ ماہ ہی ایک پاکستانی خبر رساں ادارے کی جانب سے رپورٹ کیا گیا تھا کہ پاکسان کے تمام بڑے بینکوں کا ڈیٹا چوری کرلیا گیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بینک اکاؤنٹس کی معلومات اور پاس ورڈ کو عالمی مارکیٹ میں ’ڈارک ویب‘ کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں چند پاکستانی بینکوں نے بیرون ممالک میں ڈیبٹ کارڈ کو استعمال کرنے کی سہولت بند کردی تھی جبکہ متعدد بینکوں نے اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اے ٹی ایم کا پن نمبر تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری جانب ایس بی پی کا کہنا تھا کہ بینکوں نے سینٹرل بینک کی ہدایات پر اپنے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈز کسی بھی صورت میں اپنی رقم نہیں کھوئیں گے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 20 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں