قومی اسمبلی: قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے فارمولے پر حکومت اور اپوزیشن رضامند

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2018
ایوان زیریں کی اہم قائمہ کمیٹیاں حکومت اپنے پاس رکھے گی—فائل فوٹو
ایوان زیریں کی اہم قائمہ کمیٹیاں حکومت اپنے پاس رکھے گی—فائل فوٹو

اسلام آباد: کئی ماہ کے طویل انتظار کے بعد بالآخر حکومت اور اپوزیشن قومی اسمبلی کی 38 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرپرسن شپ کی تقسیم کے لیے فارمولے پر رضا مند ہوگئے۔

اس فارمولے کے تحت 20 کمیٹیوں کی چیئرپرسن شپ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی حکومت کے پاس ہوگی جبکہ باقی 18 کی چیئرپرسن شپ اپوزیشن کو دی جائے گی۔

قائمہ کمیٹیوں کی چیئرپرسن شپ کی تقسیم کے فارمولے کو حتمی شکل پارلیمنٹ ہاؤس میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں دی گئی، اس اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ(ن) سمیت تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: بلاول نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کی پیشکش مسترد کردی

واضح رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرپرسن شپ پر اختلاف ان تمام کمیٹیوں کے قیام میں تاخیر کی اصل وجہ تھی۔

اس ملاقات کے بعد مسلم لیگ(ن) میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت اور اپوزیشن اس فارمولے پر متفق ہوئے ہیں، جس کے تحت اپوزیشن کو ان 12 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ دی جائے گی جو مسلم لیگ(ن) کے سابق دور حکومت میں اپوزیشن کے پاس تھیں، اس کے علاوہ موجودہ اپوزیشن کو 6 مزید قائمہ کمیٹیاں دی جائیں گی۔

تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کونسی 6 اضافی کمیٹیوں کی قیادت اپوزیشن کو دی جائے گی۔

اپوزیشن کو دی جانے والی 18 کمیٹیوں میں 10 کی قیادت مسلم لیگ(ن)، 6 پاکستان پیپلز پارٹی اور 2 متحدہ مجلس عمل کو دی جائے گی۔

دوسری جانب ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹیوں کی قیادت کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہوا ہے اور اب اس معاملے پر کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق دور حکومت میں جن قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی حکومت کو دی گئی تھی رواں دور میں بھی وہی کمیٹیاں اپوزیشن کو دی جائیں گی جبکہ باقی کمیٹیوں کی قیادت حکومتی بینچوں کے پاس ہوگی۔

یہاں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے دفاع، داخلہ، خزانہ، خارجی امور اور پیٹرولیم جیسے اہم قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اہم قائمہ کمیٹیاں اپنے پاس رکھتی ہے تو اپوزیشن کو کوئی اعتراض نہیں، ’اپوزیشن نے کبھی ان اہم کمیٹیوں کے لیے حکومت سے مطالبہ نہیں کیا‘۔

خیال رہے کہ فعال قائمہ کمیٹیوں کی غیر موجودگی کے باعث پارلیمنٹ میں قانون سازی کا عمل سست روی کا شکار ہے جبکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ذریعے مالیاتی احتساب کا پارلیمانی عمل ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ نامزد

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’قانون کے تحت قائد ایوان (وزیر اعظم) کے انتخاب کے بعد 30 روز میں اسپیکر اسمبلی تمام قائمہ اور فعال کمیٹیاں قائم کرنے کے پابند ہوتے ہیں‘۔

لہٰذا 18 اگست کو پاکستان تحریک اںصاف کے چیئرمین عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اسپیکر اسمبلی کو 17 سمتبر تک پارلیمنٹ کی 3 درجن سے زائد کمیٹیوں کا قیام عمل میں لانا تھا۔

علاوہ ازیں ذرائع کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق تمام اپوزیشن جماعتوں نے کمیٹیوں کی چیئرپرسن شپ کے لیے اپنے اراکین کے نام قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیے ہیں۔


یہ خبر 20 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں