ایف آئی اے سربراہ سے ’خود کار‘ سفری پابندیوں پر سوالات

20 دسمبر 2018
پی این آئی ایل سے 16 افراد کو بیرون ملک باہر جانے سے روکا—فائل فوٹو
پی این آئی ایل سے 16 افراد کو بیرون ملک باہر جانے سے روکا—فائل فوٹو

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بتایا ہے کہ انہوں نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے میں نام ڈالنے کے طویل طریقہ کار کو بائی پاس کرتے ہوئے خود تیار کردہ پروویژنل نیشنل آئڈینٹی فکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) کی بنیاد پر لوگوں کو ملک سے باہر جانے سے روکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر احمد نے کمیٹی کے سامنے بتایا کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے سنگین مجرموں کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے دی گئی ہدایت کے بعد اس طریقہ کار کو ڈیزائن کیا گیا‘۔

اس دوران کمیٹی کی جانب سے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پی این آئی ایل کے طریقہ کار پر وضاحت دیں۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی، دوحا جانے سے روک دیا

خیال رہے کہ گزشتہ اجلاس میں سینیٹرز نے ای سی ایل میں نام نہ ہونے کے باوجود شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 2 اراکین قومی اسمبلی اور رکن صوبائی اسمبلی حمزہ شہباز کو بیرون ملک جانے سے روکنے پر حیرانی کا اظہار کیا تھا۔

گزشتہ ماہ سیکیورٹی حکام نے پشاور ایئرپورٹ پر قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ اور علی وزیر کو دبئی جانے سے روکا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو بھی ملک سے باہر جانے نہیں دیا گیا تھا۔

قائمہ کمیٹی نے اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا کہ نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے ای سی ایل واحد ذریعہ نہیں بلکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بلیک لسٹ، واچ لسٹ، ریڈ بک اور پی این آئی ایل جیسی فہرستوں کا استعمال بھی کیا جارہا۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے میں 30 دن لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں ماضی میں ان کا محکمہ قتل جیسے سنگین مجرموں کو ملک فرار ہونے سے روکنے میں قاصر تھا۔

انہوں نے بتایا کہ فوری کیسز میں استعمال کے لیے 10 ماہ قبل پی این آئی ایل کو ڈیزائن کیا گیا، جس کے باعث گزشتہ 4 ماہ کے دوران 16 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا، ان افراد میں اسلام آباد میں مارگلہ روڈ پر گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار کو قتل کرنے والا امریکی سفارتکار بھی شامل تھا۔

رکن اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے بشیر میمن کا کہنا تھا کہ ان دونوں افراد کا نام انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا کی درخواست کی درخواست پر پی این آئی ایل میں ڈالے گئی۔

اس موقع پر انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں اراکین اسمبلی کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا گیا کہ انہیں ملک سے باہر جانے سے روکا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی ملٹری اتاشی کی بیرون ملک جانے کی کوشش ناکام

اجلاس کے دوران کمیٹی کے رکن کی جانب سے اٹھائے گئے سوال پر خصوصی سیکریٹری داخلہ ڈاکٹر امیر احمد نے کہا کہ جن دو ایم این ایز کے ناموں پر سوال اٹھ رہا ہے، ان کے نام کابینہ کی منظوری کے بعد پی این آئی ایل میں ڈالے گئے تھے۔

اس جواب پر کمیٹی کے رکن کی جانب سے جواب دیا گیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے استعمال کیا جانے والا پی این آئی ایل کی کوئی قانونی بنیاد نہیں اور یہ صرف ایک من گھڑت طریقہ کار ہے۔

بعد ازاں اجلاس کے اختتام پر کمیٹی کی اس نتیجے پر پہنچی کہ ڈی جی ایف آئی اے پی این آئی ایل اور اس کی قانونی بنیاد سے متعلق تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں