پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) پروجیکٹ کے تعمیراتی کام کی وجہ سے آنکھوں اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا 4 سو ٹریفک وارڈن کے علاج کے اخراجات اٹھانے کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی اے نے بس ریپڈ ٹرانزٹ کے روٹ پر تعینات کیے گئے 4 سو ٹریفک پولیس وارڈن کے پھیپھڑوں اور ہیپاٹائٹس کے علاج کی درخواست منظور کرلی۔

گزشتہ ایک برس سے جاری تعمیراتی کام کی وجہ سے ٹریفک وارڈنز گرد اور دھول سے شدید متاثر ہیں جن کا علاج کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) میں کیا جائے گا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پشاور کے چیف آفیسر کاشف ذوالفقار نے پی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو لکھے گئے خط میں ٹریفک وارڈنز کے علاج معالجے سے متعلق درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں : خراب منصوبہ بندی کس طرح پشاور کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے؟

ڈان کو موصول ہونے والے اس خط کی کاپی میں لکھا گیا تھا کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے متعلقہ یونٹ کے ٹریفک وارڈنز دن رات کام کررہے ہیں۔

اس میں بتایا گیا کہ منصوبے کے تعمیراتی کام کے دوران مشکل حالات کا سامنا کرنے کے باجود پشاور کی ٹریفک پولیس نے سڑکوں پر ٹریفک کو یقینی بنایا تھا۔

خط میں آگاہ کیا گیا کہ ٹریفک وارڈنز کا جوش و جذبہ منصوبے کی وجہ سے ہونے والی آلودگی سے متاثر ہوا جو شدید نقصان دہ ہے جس سے روز بروز ان کی صحت گرتی جارہی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ’مذکورہ یونٹ کے پاس اتنے زیادہ افراد کے طبی اخراجات اٹھانے کے لیے معاشی ذرائع موجود نہیں‘، اس میں مزید بتایا گیا کہ یہی آلودگی پولیس اہلکاروں کے درمیان پھیپھڑوں، زکام اور آنکھوں کے امراض کی وجہ بھی بن رہی ہے'۔

خط میں کہا گیا کہ ایسے ٹریفک وارڈنز کا علاج سرکاری ادارے کروائیں اور ٹریفک پولیس کو اس مقصد کے لیے میڈیکل فنڈ فراہم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں : وفاقی حکومت اور خودمختار اداروں میں ایک لاکھ 70 ہزار خالی آسامیاں

بس ریپڈ ٹرانزٹ پروجیکٹ کے ماحولیاتی، طبی اور حفاظتی پہلوؤں کی مستقل نگرانی 5 سطح پر کی جارہی ہے جس میں ایگزیکیوٹنگ ایجنسی، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، انوائرمینٹل مانیٹرنگ کنسلٹنٹ، پروجیکٹ مینیجمنٹ اور کنسٹرکشن سپر ویژن کنسلٹنٹس (پی ایم سی ایس سی ) اور کنٹریکٹر شامل ہیں۔

اس حوالے سے حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جنوری سے جون 2008 تک شدید گرد کے اخراج کا مسئلہ اپریل 2018 تک قائم تھا۔

اس میں بتایا گیا تھا کہ ’ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے پانی کے چھڑکاؤ اور مٹی کے میکینیکل سوئپنگ کے استعمال سے اس پر قابو پایا گیا‘۔

یہ اقدامات کافی بہتر ثابت ہوئے جس سے اس مسئلے کو قابو کرنے میں مدد ملی جبکہ ٹریفک لین پر تارکول ڈالنے کی وجہ سے بھی دھول مٹی میں کمی آئی۔

رپورٹ میں ملبے کو غیرقانونی طور پر ضائع کیے جانے سے متعلق کہا گیا کہ پروجیکٹ کے آغاز سے رپورٹنگ کے عرصے کے وسط تک ملبے اور کھدائی کے مواد کو غیر قانونی طور پر ٹھکانے لگائے جانے کا معاملہ منصوبے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں