کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے وفاق سے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت منصوبوں اور فنڈز کے حوالے سے 'قومی کمیشن' تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

صوبائی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کرلی جس میں وفاقی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ 'سی پیک' کے تحت منصوبوں اور فنڈز کی 'غیر دانشمندانہ' تقسیم کے معاملے کو حل کرنے کے لیے قومی کمیشن تشکیل دے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم) کے رکن ثناللہ بلوچ کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد سابق صوبائی وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے پیش کی، جس کی حکومتی اور اپوزیشن دونوں بینچز کے اراکین نے حمایت کی۔

دونوں جانب سے حمایت کے بعد قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی جس میں بلوچستان کو برابری کا حصہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال نے قرارداد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سی پیک منصوبوں میں بلوچستان کا موجودہ حصہ صرف ساڑھے 4 فیصد ہے، اگر ہم گوادر بندرگاہ اور ہبکو کے منصوبے شامل نہ کریں تو بلوچستان کا حصہ کم ہو کر صرف ایک فیصد رہ جاتا ہے۔'

مزید پڑھیں: سی پیک میں بلوچستان کے ’معمولی‘ حصے پر کابینہ اراکین حیرت زدہ

وزیر اعلیٰ جام کمال نے مزید شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران وفاق نے بلوچستان کو نظرانداز کیا اور 5 ہزار ارب میں سے صرف 300 ارب روپے صوبے میں خرچ کیے گئے۔

دوسری جانب اسلم رئیسانی نے منصوبے کی شفافیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سی پیک سے متعلق معاہدوں پر بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔

قرارداد کے قابل عمل ہونے سے متعلق ثناللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ 'سی پیک کے مغربی روٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور تمام منصوبوں کے سمت کو مشرقی روٹ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔'

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ 'بلوچستان کو 62 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں ترقیاتی اسکیموں اور فنڈز مختص کیے جانے کے حوالے سے نظر انداز کیا گیا۔'

یہ بھی پڑھیں: سی پیک منصوبوں میں 'صوبے کے حصے' پر بلوچستان حکومت کے تحفظات

بی این پی مینگل کے رکن نے کہا کہ 'طویل ساحلی پٹی اور بے پناہ معدنی وسائل کے باوجود بلوچستان کو اس کے جائز حصہ دینے سے کئی بار انکار کیا گیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ مشرقی روٹ پر صنعتی ترقی کے حوالے سے 99 فیصد سرمایہ کاری کی گئی اور بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں