‘کوئٹہ کے مضافات میں 40 سے65 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار’

تھر میں غذائی قلت اور آلودہ پانی سے متاثرہ  بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد روال سال 635 ہوچکی ہے—فائل/فوٹو:ڈان
تھر میں غذائی قلت اور آلودہ پانی سے متاثرہ بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد روال سال 635 ہوچکی ہے—فائل/فوٹو:ڈان

بلوچستان حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کوئٹہ کے چند مضافات میں 6 ماہ سے 5 سال کی عمر کے 40 سے 65 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے یونیسیف سے منسلک ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے چند مضافات میں 6 ماہ سے 5 سال کی عمر کے 45 فیصد سے 65 بچوں کو انتہائی غذائی قلت کا سامنا ہے۔

بلوچستان کے لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے صوبائی کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر شیر احمد استنکزئی کا کہنا تھا کہ یونیسیف اور بلوچستان حکومت نے مشترکہ طور پرکوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ کے اضلاع میں 6 ماہ سے 5 سال کے بچوں کا سروے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ5 دسمبر سے 8 دسمبر تک ہونے والے اس سروے کے لیے 2500 سے زائد ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:تھر: غذائی قلت سے مزید 7 نومولود جاں بحق، تعداد 635 ہوگئی

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ ‘غذائی کمی کے شکار سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں کوئٹہ کی تحصیل پنج پائی اور کاہان شامل ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ پنج پائی اور کاہان میں شدید غذائی قلت 40 سے 65 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے اصول کے مطابق جہاں پر 15 فیصد تک بچوں میں غذائی قلت پائی جائے تو وہاں پر ایمرجنسی نافذ کردی جاتی ہے۔

ڈاکٹر شیر احمد استنکزئی نے کہا کہ خشک سالی کے باعث بلوچستان حکومت نے صوبے کے 14 اضلاع میں پہلے ہی ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے۔

مزید پڑھیں:تھر: غذائی قلت سے مزید 4 نومولود جاں بحق، تعداد 463 ہوگئی

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے چاغی، نوشکی، واشک اور خاران سمیت خشک سالی سے متاثرہ اضلاع میں بھی بچوں کے سروے کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبائی کوآرڈی نیٹر برائے لیڈی ہیلتھ ورکرز نے کہا کہ خشک سالی سے متاثرہ اضلار میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بچوں کا سروے کریں گی۔

طبی ماہرین کے ماننا ہے کہ غربت، صاف پانی کی عدم فراہمی اور غیرمعیاری خوراک ہی غذائی قلت کا باعث بنتے ہیں۔

یونیسف کی جانب سے فراہم کی گئی تصاویر میں بچوں کو نازک، کمزور، معذور اور باقاعدہ چلنے سے محروم دیکھا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ صوبہ سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں غذا کی کمی اور وائرل انفیکشنز کے باعث بچے جاں بحق ہوتے رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے ہی 7 نومولود دم توڑ گئے تھے۔

امدادی تنظیموں اور دیگر اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق تھرپارکر میں رواں سال غذائی قلت اور آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں سے نومولود بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 6 سو 35 ہوگئی ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اس معاملے پر ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا اور سابق سیکریٹری صحت کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا اس کے ساتھ ہی تھر میں بچوں کی اموات کے معاملے پر غیر جانب دار ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل کمیٹی بھی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں