اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں شامل حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے فنڈز کی منتقلی میں تاخیر ہونے کے امکانات ہیں۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف سے ہماری بات چیت درست سمت میں نہیں جارہی، اب ہمارے پاس خود کچھ کرنے کا ہی آپشن ہے‘۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات کی معلومات رکھنے والے وزارت خزانہ کے سینیئر حکام نے مذاکرات کی حالیہ تصویر کو دھندلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ کہ ’آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کردہ ایڈجسٹمنٹ کو عمل میں نہیں لایا جاسکتا‘۔

اسی وجہ سے حکومت پریشانی کا شکار ہے کیونکہ آئی ایم ایف کا پروگرام ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سمیت عالمی مالیاتی مارکیٹوں سے ذخائر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔

دوسری جانب حکومت نے سعودی عرب سے امداد حاصل کرکے سانس لینے کا وقت حاصل کرلیا ہے جبکہ اگلے چند دنوں میں ابوظہبی کی جانب سے 3 ارب ڈالر کے ترقیاتی فنڈ ملنے کی بھی امید ہے۔

مزید پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

اسی بارے میں مذکورہ ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چین سے بھی دیگر 2.2 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈپازٹ کرائے جانے پر بات کی جارہی ہے جس کے حوالے سے آخری اجلاس 20 دسمبر کو ہوا تھا، تاہم چین سے ملنے والے یہ فنڈز مشروط ہوں گے۔

حالیہ خسارہ 1 ارب ڈالر فی مہینہ ہے اور ان رقوم کی آمد سے حکومت کو مزید وقت مل جائےگا۔

وزارت خزانہ کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ ان رقوم سے حکومت کو ایک سال کا وقت مل جائے گا تاہم آئی ایم ایف کا پروگرام ہر صورت میں ناگزیر ہوگیا ہے اور حکومت کو امید ہے کہ اس ایک سال کی مدت میں آئی ایم ایف کی پوزیشن کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایک اور ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ممکن ہے کہ آئی ایم ایف ہماری حالت دیکھ کر واپس آئے اور ہمیں گرنے سے بچالے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مشکل ترین مذاکرات کے بعد شاید وہ کسی پوائنٹ پر آئیں گے اور معاہدے پر دستخط کردیں گے‘۔

اہم نکات

فی الفور اتنی دور کی بات کرنا مناسب نہیں تاہم مذاکرات میں ایک مرکزی مسئلہ آمدنی اور اخراجات کے درمیان ایڈجسٹمنٹ کا حجم ہے جس پر آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو عمل کرنے کے لیے زور دیا جارہا ہے جبکہ ایک اور مسئلہ شرح سود میں اضافہ ہے جو حکومت کی قرض لینے اور کاروبار کرنے کی قیمت بڑھادے گا جبکہ ڈسکاؤنٹ ریٹ بھی ایک سال کی مدت میں 5.75 فیصد سے 4.75 فیصد اضافے کے ساتھ 10.5 تک بڑھ چکا ہے۔

اس کے علاوہ ایکسچینج ریٹ کی مکمل اور آزاد بہاؤ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جو مارکیٹ کو روپے کی قدر طے کرنے کی آزادی دیتی ہیں، یہ مطالبہ بھی انتہائی اہم ہے، حکام کا ماننا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی ذر مبادلہ کی مارکیٹ اتنی کمزور ہے کہ انہیں مارکیٹ بھی نہیں کہا جاسکتا، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ماضی میں مارکیٹ میں کرنسی ریٹ طے کرنے کے لیے مداخلت کی جاتی رہی ہے۔

سینیئر حکام نے ڈان کو بتایا کہ ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے جس میں 20 سے 30 کروڑ ڈالر کی تجارت روزانہ کی بنیاد پر کی جاتی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو ماننے سے چند افراد کو اس چھوٹی سی مارکیٹ میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے جو پاکستان کے لیے سیاسی طور پر اور معاشی طور پر کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف، حکومت میں اتفاق نہ ہونے پر منی بجٹ کی تیاری

جون 2019 میں پاکستان کا ڈالر ریٹ کو 150 روپے تک لانے کے حوالے سے بات پر ایک حکام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے، بحث صرف ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ کرنے کے میکینزم پر ہے، اس کی حقیقی قیمت پر نہیں۔

ایک علیحدہ رائے میں آئی ایم ایف کے اسلام آباد کے لیے نمائندے ٹیریسا دبن سانشے نے بھی اسی طرح کی بات کہی تھی۔

ماضی کی ناکامیاں بھی زیر غور

فنانس حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے گزشتہ معاہدوں پر برہمی کا اظہار کیا ہے، انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ماضی میں ہم سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس مرتبہ فنڈز دیے جانے سے قبل ہی ایڈجسٹمنٹ کو عمل میں لانا چاہتے ہیں۔

گزشتہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں پاکستان کی اپنے وعدوں سے ریکارڈ ناکامیاں دیکھی گئی تھیں جس میں نجکاری سے لے کر گردشی قرضوں میں کمی بھی شامل ہے۔

اس طرح کے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر آئی ایم ایف ناخوش ہے جبکہ مقامی میڈیا کی جانب سے اس پر تبصروں نے بھی زخم چھوڑے ہیں۔

حکومتی حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو سخت شرائط امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ رویے میں تبدیلی کی وجہ سے بھی ہیں۔

ایڈجسٹمنٹ کا حجم

سینیئر حکام کے مطابق پیش کیے گئے پروگرام میں آئی ایم ایف 3 سے 4 سالوں میں 1600 ارب روپے سے 2000 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف اخراجات کی کمی کا بوجھ حالیہ اخراجات پر ڈالنا چاہتا ہے جس میں قرضوں کی سہولت اور سبسڈیز بھی شامل ہوں گی۔

آئی ایم ایف کے حالیہ اخراجات میں کمی کا مطالبہ حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے جس میں حکومت کو جنرلز کی تنخواہ میں کمی کے علاوہ صوبوں کو دیے جانے والے 9 ویں این ایف سی ایوارڈ سے بھی کچھ رقم واپس لینی پڑسکتی ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ پورا کرنا ناممکن ہے اور پاکستان کا اس پر رضامندی کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ چند غیر ترقیاتی اخراجات کو ختم یا کم نہیں کیا جاسکتا۔

مذاکرات میں حالیہ اخراجات ’پرائمری بیلنس‘ کی مد میں سامنے آیا، حکومتی بجٹ میں پرائمری بیلنس، سود کی ادائیگی کو ہٹانے کے بعد آمدن اور اخراجات کے فرق کو کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے تشخیص کی جاتی ہے کہ کسی بھی ملک کا قرض کو برداشت کرنے کی راہ ہموار ہے کہ نہیں، اگر بیلنس خسارے میں ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس سال ملک کو سود کی ادائیگی قرض لے کر کرنی پڑے گی۔

گزشتہ سال پاکستان کا پرائمری خسارہ 760 ارب روپے کے قریب تھا جس کا مطلب رواں سال سود کی ادائیگی قرض لے کر کی جانی تھی۔

پرائمری خسارے کو ختم کرنے کے لیے حالیہ اخراجات میں کمی کرنی پڑے گی جو خسارہ اور جی ڈی پی کے شرح کو قریب کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے، وزیر خزانہ

ریکارڈ پر بات کی جائے تو حکومت اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کی توجہ ’مالی سال کے استحکام‘ پر ہیں۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے بارہا کوششوں کے باوجود رائے دینے سے انکار کردیا تاہم وزارت کے ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب نے ڈان کو بتایا کہ ’حکومت مالی استحکام کے راستے پر گامزن رہے گی تاکہ پرائمری اور مالی سال کے خسارے کو کم کیا جاسکے‘۔

آئی ایم ایف سے سانشے کا بھی کہنا تھا کہ جب فند مالی استحکام میں معاونت کریں گے تو ہم پرائمری بیلنس کی جانب دیکھیں گے جو ان مقاصد کو جانچنے کے لیے سب سے بہترین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے نیا نہیں اور نہ مخصوص ہے تاہم گزشتہ پروگراموں میں آئی ایم ایف نے پرائمری خسارے کے بجائے مجموعی مالی سال کے خسارے پر توجہ دینے کو ترجیح دی تھی۔

شرح سود پر آئی ایم ایف 2018 سے آگے قیمتوں میں اضافہ چاہتا ہے، ڈاکٹر نجیب کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کو پیغام پہنچادیا ہے کہ ہم نے شرح کو 400 جوازی پوائنٹس تک بڑھا دیا ہے تاہم ان کے مطابق آئی ایم ایف اس میں مزید اضافہ چاہتا ہے۔

یہ دیگر شرائط میں سے ایک ہے جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی رواں مالی سال کی آمدن میں بڑے اضافے کے ساتھ ساتھ گیس، بجلی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ بھی شامل ہے، ہم میں اتنی صلاحیت ہی نہیں جتنا آئی ایم ایف ہم سے اگلے 6 ماہ میں جمع کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔

اس طرح کی شرائط ہے کے ساتھ آئی ایم ایف کا پروگرام ملنا بہت مشکل ہے تاہم حکام اگلے چند ماہ میں ان شرائط میں تبدیلی کے لیے پر امید ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان کو اپنے منصوبے کے بارے میں بتادیا ہے جو ہم آسانی سے کرسکتے ہیں اور ہم آئی ایم ایف سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے رابطے میں ہیں‘۔

سانشے نے واشنگٹن سے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی اقدامات کے حوالے سے دستاویزات موصول ہوچکے ہیں، پاکستان کے میکرو، ایڈجسٹمنٹ پالیسیز کی ضرورت اور ہدف کے لیے حکام اور آئی ایم ایف کے ملازمین میں مضبوط تفہیم پائی جاتی ہے تاہم معاہدہ مغالطے کا شکار نظر آرہا ہے۔

دوسرا راستہ

آئی ایم ایف سے مذاکرات مُغالطےکا شکار ہونے کی وجہ سے حکومت نے بڑے پیمانے پر غیر ملکی زر مبادلہ کو دیگر ذرائع سے ملک میں لانے کے لیے کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔

وزارت خزانہ کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ حالیہ اقدامات رقم کی ترسیل میں 2 سے 3 ارب ڈالر کا اضافہ کردے گی، انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی امید کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ رقم کی ترسیل میں اضافہ اور ایف ڈی آئی بیرونی اطراف میں دباؤ کم کردیں گے۔

تیل کی قیمتوں میں کمی سے بھی نئے حقائق سامنے آئے ہیں، انہیں امید ہے کہ موجودہ خسارہ گزشتہ سال کے 19 ارب ڈالر سے کم ہوکر 13 ارب ڈالر تک جاپہنچے گا تاہم یہ تب ہی ممکن ہے جب بر آمدات اور رقم کی ترسیل میں مسلسل اضافہ جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’آئی ایم ایف کے پاس جانا تباہ کن ہوگا‘

سرمایہ کاری کی طرف دیکھا جائے تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے بلوچستان کے علاقے گوادر کے نزدیک ایک انتہائی وسیع سرمایہ کاری کیے جانے کے اعلان کا بھی امکان ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب گوادر کے نزدیک آئل سٹی بنانا چاہتا ہے جس کی ایک ریفائنری کی لاگت 7 سے 8 ارب ڈالر ہوگی۔

پاکستان کی جانب سے قطر سے بھی ایل این جی کی در آمدات کے حوالے سے بات چیت کی جارہی ہے۔

اس حوالے سے اطلاع رکھنے والے حکام کا کہنا تھا کہ ’یہ مذاکرات ابھی جاری ہیں‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 24 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں