2018: یوٹرن وزارت، سستا ہیلی کاپٹر اور شہد کی بوتل

ہر شہری کو اگرچہ احساس ہے کہ سال کے بدلنے میں صرف دیوار پر آویزاں کیلینڈر کے تبدیل ہونے کا فرق ہوتا ہے، تاہم پھر بھی ہر کوئی اچھے کی امید رکھتا ہے۔

سال 2018 کا اختتام ہونے کو ہے اور دنیا کے ہر شہری کی طرح پاکستانیوں نے بھی نئے سال سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔

سال کے اختتام پر اگر پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہیں مایوسی اور کہیں خوشی نظر آئے گی، کیوں کہ رواں برس جہاں ملک میں حکومت کی تبدیلی ہوئی، وہیں لوگوں کے حالات کچھ زیادہ نہیں بدلے۔

عوام کو امید تھی کہ پہلی بار ایک نئی سیاسی جماعت کی جانب سے حکومت بنائے جانے پر شاید ان کے کچھ حالات بدلیں، لیکن تاحال عوام اور ملک کے حالات بدلتے نظر نہیں آتے۔

حکومت اور اداروں کی کارکردگی کو چھوڑ کر اگر سال بھر ہونے والے اہم سیاسی مباحثوں پر نظر دوڑائی جائے تو سال کے اختتام پر نہ صرف ہنسی آئے گی، بلکہ تعجب بھی ہوگا کہ اہم افراد سال بھر کس طرح کے مسائل میں الجھے رہے۔

پاکستانی سیاست کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں کسی رہنما کی جانب سے بولے گئے الفاظ سیاسی و سماجی تاریخ اور ثقافت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

جس طرح سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اپنی اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا، جو دیکھتے ہی دیکھتے سیاست کا حصہ بن گیا تھا۔

آصف علی زرداری کا نعرہ ’پاکستان کھپے‘ خوب مشہور ہوا تھا—فائل فوٹو: ڈان
آصف علی زرداری کا نعرہ ’پاکستان کھپے‘ خوب مشہور ہوا تھا—فائل فوٹو: ڈان

اسی طرح سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اپنی نااہلی کے بعد بولا گیا جملہ ’مجھے کیوں نکالا‘ بھی سیاسی بیان بازی کا حصہ بنا۔

نواز شریف کی جانب سے ’مجھے کیوں نکالا’ کے جملے سے قبل حالیہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے جلسوں اور انتخابی ریلیوں میں ہمیشہ یہ جملہ سننے کو ملتا تھا کہ ’میاں صاحب جاں دیو، ساڈی واری آن دیو‘ ، یہ جملہ بھی پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ بنا۔

تاہم سال 2018 میں ایسے جملے عوامی اور سیاسی بحث کا موضوع بنے، جو بظاہر غیر سیاسی تھے۔

رواں برس عوام، سیاسی کارکنان اور اہم شخصیات محکمہ زراعت، ہیلی کاپٹر سروس، دیسی مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار، ممنوع مشروپ کی بوتل میں شہد اور خلائی مخلوق جیسے ’غیر معروف جملوں‘ پر بحث کرنے میں الجھے رہے۔

خلائی مخلوق

ویسے تو دنیا میں سب سے زیادہ بحث خلائی مخلوق پر ہوتی ہے اور نہ صرف سائنسدان بلکہ عام افراد بھی اب خلائی مخلوق کو زمین پر بسنے والے افراد کا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔

تاہم پاکستانی سیاست میں ’خلائی مخلوق‘ کا لفظ دوسری معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، جس کی سیاستدان کم ہی تشریح کرتے ہیں۔

اگرچہ پاکستانی سیاست میں اس لفظ کو پہلے بھی استعمال کیا گیا، تاہم رواں برس اس کے استعمال میں جہاں اضافہ دیکھا گیا، وہیں سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث ہوئی۔

اس لفظ کو رواں برس سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے ہی استعمال کیا تھا، جس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس لفظ کا استعمال کیا۔

شاہد خاقان عباسی نے مئی 2018 میں بیان دیا کہ جولائی 2018 میں ہونے والے انتخابات خلائی مخلوق کروائے گی۔

نواز شریف کی جانب سے اس لفظ کے استعمال کے بعد سیاستدانوں نے بھی اپنے تجربات شیئر کیے اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر سیاستدان عوام کو وضاحت کیے بغیر سمجھانے لگے کہ خلائی مخلوق کیا ہوتی ہے؟

مولانا فضل الرحمٰن نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ انہوں نے یہ لفظ پہلی بار سنا ہے، تاہم اسی نام کو کبھی فرشتوں تو کبھی جنات کا نام دیا جاتا ہے۔

بعد ازاں اس معاملے پر نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بتایا کہ انتخابات میں دراصل جیپ کا نشان خلائی مخلوق کا نشان ہے۔

سینیٹر اعتزاز احسن بھی اس معاملے پر بولتے نظر آئے، جب کہ سوشل میڈیا پر بھی خلائی مخلوق کا چرچہ رہا اور صارفین نے طرح طرح کی پوسٹس شیئر کیں۔

محکمہ زراعت

پاکستانی سیاست میں ’محکمہ زراعت‘ کی اہمیت اچانک اس وقت بڑھ گئی، جب جولائی 2018 میں لندن میں مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ ان کی جماعت کے امیدواروں کو توڑا جا رہا ہے۔

وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف اہم بیان دیتے نظر آئے—فائل فوٹو: ڈان
وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف اہم بیان دیتے نظر آئے—فائل فوٹو: ڈان

انہوں نے یہ بیان اس وقت دیا تھا، جب ملتان سے ان کی جماعت کے امیدوار رانا سراج اقبال نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پہلے دعویٰ کیا کہ انہیں ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے زدوکوب کیا، لیکن بعد ازاں انہوں نے بیان بدلتے ہوئے کہا تھا کہ دراصل ان کے گودام پر محکمہ زراعت کے اہلکاروں نے چھاپا مارا۔

رانا سراج اقبال کی جانب سے پہلے ریاستی اداروں اور پھر محکمہ زراعت کا نام لینے کی دیر تھی کہ اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور لوگوں نے محکمہ زراعت کی بہادری پر طرح طرح کی پوسٹس شیئر کر ڈالیں۔

ہیلی کاپٹر کی سواری

انتخابات میں فتح کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بننے والی حکومت کو جہاں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، وہیں انہیں اپنے ووٹرز کو بھی مطمئن کرنے کے لیے محنت کرنی پڑی۔

حکومت بننے کے چند دن بعد ہی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک نجی ٹی وی سے بات چیت کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے اپنی سرکاری رہائش گاہ سے بنی گالہ تک **ہیلی کاپٹر پر سفر کرنے کا خرچہ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ** پڑتا ہے۔

فواد چوہدری کی جانب سے یہ بات کہے جانے کی دیر تھی کہ ہر طرف سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔

جہاں اپوزیشن نے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا، وہیں یہ مطالبہ بھی کردیا کہ اگر ہیلی کاپٹر کی سواری اتنی ہی سستی ہے تو عوام کے لیے بھی اس کی سروس شروع کردیں۔

بات یہیں نہیں رکی بلکہ اس پر سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچے ہوئے اور کئی لوگ یہ کہتے اور لکھتے رہے کہ وہ ٹیکسی اور رکشے پر دفتر سے گھر 300 روپے خرچ کرکے تنگ آگئے ہیں، اس لیے اب وہ ہیلی کاپٹر سے یہ کام سر انجام دیں گے۔

کچھ افراد نے لکھا کہ ان کے والد نئی گاڑی چاہتے ہیں، تو انہوں نے انہیں کہا کہ اس کی جگہ ایک ہیلی کاپٹر لے لیں وہ سستا پڑے گا۔

کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ وزیر اطلاعات کے بیان کے بعد ان کے بچوں نے اسکول وین میں اسکول جانے سے انکار کردیا اور ایک ہیلی کاپٹر کا مطالبہ کردیا، کیونکہ اس کی لاگت 50 روپے فی کلومیٹر ہے۔

ممنوع مشروب کی بوتل میں شہد

رواں برس چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار بھی کافی متحرک نظر آئے اور انہوں نے نہ صرف کئی اہم ریمارکس دیے، بلکہ انہوں نے کئی ہسپتالوں اور اداروں پر چھاپے بھی مارے۔

چیف جسٹس نے اچانک ہسپتال کا دورہ کیا — فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس نے اچانک ہسپتال کا دورہ کیا — فوٹو: ڈان نیوز

اسی طرح ستمبر 2018 میں جسٹس ثاقب نثار نے کراچی کے اس نجی ہسپتال کا دورہ کیا، جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما شرجیل انعام میمن زیر علاج تھے۔

شرجیل انعام میمن کرپشن کیس میں قید کی سزا کاٹ رہے تھے، تاہم انہیں علاج کی غرض سے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا اور ان کے لیے ہسپتال کے کمرے کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے اچانک ان کے ہسپتال کا دورہ کیا، جہاں ان کے **کمرے سے شراب کی بوتلیں بر آمد ** کی گئیں، جس کے بعد شرجیل میمن کے کمرے کو سیل کر دیا گیا۔

ہسپتال سے 2 بوتلیں برآمد ہوئیں—فوٹو: ڈان نیوز
ہسپتال سے 2 بوتلیں برآمد ہوئیں—فوٹو: ڈان نیوز

پولیس نے شرجیل انعام میمن کی سیکیورٹی پر تعینات 2 افراد کو حراست میں بھی لیا، جس میں سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ شراب کی ایک بوتل میں تیل اور دوسری میں شہد تھا۔

بعد ازاں شرجیل میمن کی میڈیکل رپورٹ بھی منگوائی گئی۔

تاہم شراب کی بوتلوں میں تیل اور شہد رکھے جانے پر کافی چرچہ ہوا اور لوگوں نے شراب کی بوتلوں کی تصاویر شیئر کرکے بتایا کہ وہ بھی صحت مند ہونے کے لیے شہد استعمال کر رہے ہیں۔

حکومت کو وزارت یو ٹرن بنانے کا مشورہ

پاکستانی سیاست میں یوں تو ’یوٹرن‘ کی اصطلاح کافی پرانی ہے اور ہر پاکستانی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ یوٹرن لینا سیاستدان کا مشغلہ ہے، تاہم رواں برس اس لفظ یا اصطلاح پر اس لیے بھی زیادہ ہنگامہ ہوا کہ اسے وزیر اعظم عمران خان نے استعمال کیا۔

نومبر 2018 میں سینیئر صحافیوں سے بات چیت کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ تاریخ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی۔

حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں ہوتا، عمران خان—فوٹو: ٹوئٹر
حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں ہوتا، عمران خان—فوٹو: ٹوئٹر

انہوں نے مزید کہا تھا کہ یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، جو یوٹرن لینا نہیں جانتا، اس سے بڑا بے وقوف لیڈر نہیں، تاہم نوازشریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا بلکہ جھوٹ بولا تھا۔

وزیر اعظم کے اس بیان پر جہاں سوشل میڈیا پر ہنگامہ رہا اور لوگوں نے طرح طرح کے معاملات پر یوٹرن لینے شروع کیے، وہیں یہ بھی کہا گیا کہ جلد ہی وزیر اعظم اپنے اسی بیان پر بھی یو ٹرن لیں گے۔

یو ٹرن کا معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ارکان اسمبلی نے یہ مشورہ تک دے دیا کہ حکومت کو ‘وزارت یو ٹرن بنانی چاہیے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے آگے بڑھتے ہوئے حکومت کو تجویز دی تھی کہ وزارت یو ٹرن بھی بنائی جائے۔

دیسی انڈے اور مرغی کا سہارا

پاکستان سے غربت ختم کرنے کے لیے اگرچہ ماضی میں بھی حکومتوں نے کئی اقدامات کیے اور خود حکام نے عوام کو مفید مشورے بھی دیے، تاہم وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو ایک ایسا مشورہ دیا جس پر لوگوں نے ان کے مشورے کو مذاق بنا لیا۔

نومبر 2018 میں اپنی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ ملک سے غربت ختم کرنے کے لیے دیسی انڈوں اور مرغیوں کا سہارا لیں گے اور انہوں نے اس منصوبے پر تجرباتی کام مکمل کرلیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت ملک کی خواتین کو دیسی مرغیوں کے انڈے اور چوزے فراہم کرے گی اور اس منصوبے کے لیے زیادہ سرمائے کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا تجربہ ہوچکا ہے اور اس کے تحت حکومت خواتین کو فراہم کی گئی دیسی مرغیوں کو انجکشن لگا کر مدد کرے گی، جس سے ان کو زیادہ پروٹین بھی ملے جبکہ فروخت کرنے کے لیے مرغیاں اور انڈے بھی دستیاب ہوں گے۔

وزیر اعٖظم کے اس مشورے پر بھی سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے ہوتے رہے، یہاں تک کہ اپوزیشن نے بھی وزیر اعظم کے اس مشورے کو ملک اور قوم کے لیے باعث شرم قرار دیا۔

اپوزیشن سمیت دیگر طبقہ ہائے زندگی کی جانب سے تنقید کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کرارا جواب بھی دیا تھا۔

دیگر اہم سماجی مسائل

ان سیاسی موضوعات اور مسائل سمیت پاکستان میں رواں برس دیگر اہم سماجی مسائل اور مہمات بھی سوشل میڈیا پر زیر بحث رہیں۔

سال 2018 میں جن سماجی مہمات کا سوشل میڈیا پر تذکرہ رہا، ان میں مارچ کے مہینے میں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہونے والا عورت مارچ بھی شامل ہے۔

عورت مارچ میں ایسے پلے کارڈز نظر آئے ، جن پر منفرد نعرے درج تھے

اس مارچ میں شریک ہونے والی افراد نے ‘آخر سڑکیں میرے باپ کی ہیں تو میری ماں کی بھی، ہمارے حقوق قبضہ کرنے کے لیے نہیں ہیں، لڑکیاں صرف اپنے بنیادی حقوق مانگتی ہیں، تو کرے تو صحیح میں کروں تو غلط اور اپنا کھانا خود گرم کرلو‘ جیسے نعروں سے آویزاں پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے۔

اس مہم پر سوشل میڈیا پر بھر پور اظہار کیا گیا،، تاہم کئی افراد نے منفی تبصرے بھی کئے۔

علاوہ ازیں دسمبر میں اقوام متحدہ (یو این) کے خواتین سے متعلق کام کرنے والے ذیلی ادارے ‘یو این ویمن’ کی جانب سے شروع کی گئی، سماجی مہم ** ’جہیز خوری بند کرو’ ** کو بھی موضوع بحث بنایا گیا۔

اس مہم میں جہاں کئی اہم اور شوبز شخصیات نے ’جہیز خوری بند کرو’ کے پیغامات دیے، وہیں کچھ لوگوں نے اس مہم پر ازراہ تفنن ’ٹریٹ مانگنا بند کرو، لڑکوں سے ایزی لوڈ مانگنا بند کرو، ہر داڑھی والے کو مولانا کہنا بند کرو اور لڑکوں سے تصویر مانگنا بند کرو’ جیسے جملے لکھے۔

اسی طرح کوک اسٹوڈیو 11 کی نویں قسط میں گلوکارہ مومنہ مستحن اور احد رضا میر کو کلاسک گانا ’کوکو کورینا‘ گانے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

کوکو کورینا کو گانے پر جہاں سوشل میڈیا پر گلوکاروں کے حوالے سے منفی جملے سامنے آئے، وہیں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی گلوکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ساتھ ہی مومنہ مستحسن اور احد رضا میر کی گائیکی کے جواب میں سندھی کلاسیکل گلوکار جگر جلال نے بھی کوکو کورینا کو منفرد انداز میں گا کر لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

اسی طرح انتخابات سے قبل عمران خان کی سابق اہلیہ اور صحافی ریحام خان کی کتاب پر بھی سوشل میڈیا پر چرچا رہا، ، ان کی کتاب پر سیاستدان اور اہم شخصیات بھی بات کرتی دکھائی دیں۔

جہاں ریحام خان کی کتاب کو کئی سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل رہی، وہیں پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ ان کی کتاب کے پیچھے رائے ونڈ ہے اور اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سیاسی و سماجی مسائل کی طرح پاکستان میں رواں برس ’کی کی چلینج’ کا بھی چرچا رہا۔

کی کی چلینج کے معاملے نے پاکستان میں اچانک اس وقت بحث کی شکل اختیار کرلی، جب پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سیاح خاتون ایوا بیانکا زو بک نے اگست میں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی جانب سے جشن آزادی کو منفرد طریقے سے منانے کی غرض سے پاکستان کے قومی جھنڈے کے ساتھ رقص کیا تھا۔

قومی جھنڈے کے ساتھ ایئرپورٹ پر رقص کرنے کی ویڈیو سامنے آتے ہی ان کی ویڈیو وائرل ہوگئی اور اس پر بحث شروع ہوگئی اور سیاح خاتون ایک دم معروف شخصیت بن گئیں۔

بعد ازاں یہی سیاح خاتون پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کے ساتھ پاکستان کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے لگیں۔

ایسے ہی واقعات میں سے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے مقامی نیوز چینل ’سٹی 41‘ کے ایک رپورٹر کی جانب سے دی گئی انوکھی رپورٹ کا واقعہ بھی شامل ہے، جس پر سوشل میڈیا پر کافی بات چیت کی گئی۔

ہوا یوں کہ چینل کے رپورٹر حنان بخاری شادی کر رہے تھے کہ ان کے چینل کے رپورٹر نے آکر ان کی شادی کی خبر دینا شروع کردی اور پھر حنان بخاری جوش میں آگئے اور رپورٹر سے مائیک چھین کر خود ہی اپنی شادی کی رپورٹ دینا شروع ہوگئے۔

حنان بخاری نے دولہے کے لباس میں اپنی شادی کی خود ہی رپورٹ دی اور اپنی اہلیہ سے بات کرنے سمیت اپنے والدین سے بھی بات کی اور یہ معاملہ بھی بھر پور زیر بحث رہا۔

سال 2018 میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر صرف اہم مسائل کا ذکر ہی نہیں ہوا، بلکہ کچھ سنگین مسائل پر بھی بحث کی گئی۔

رواں سال ہونے والے عام انتخابات کے دوران کراچی میں انتخابی مہم کے دوران ایک سیاسی جماعت کے ارکان کی جانب سے ایک گدھے کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

سیاسی مخالفت میں ارکان اتنے آگے نکل گئے کہ گدھے پر مخالف سیاست دان کا نام لکھ کر اس پر یہ سمجھ کر تشدد کرتے رہے کہ وہ گدھے کو نہیں بلکہ مخالف سیاستدان کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سیاسی ارکان کو اخلاقیات کا درس بھی دیا گیا۔

گدھا کچھ دن بعد مر گیا تھا—فوٹو: فیس بک
گدھا کچھ دن بعد مر گیا تھا—فوٹو: فیس بک


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں