واشنگٹن: جون 1947 میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے لندن کے لیے امریکی سفیر کو کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بنگال، پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کے بجائے ایک آزاد ریاست بننا چاہے گا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والے تاریخی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ امریکا وہ پہلا ملک تھا جسے کلیمنٹ ایٹلی نے تقسیم بھارت کے منصوبے پر بریفنگ دی تھی۔

2 جون 1947 کو برطانیہ میں امریکی سفیر لوئس ولیمز ڈوگلاس نے ایک ’فوری اور انتہائی خفیہ‘ ٹیلی گرام سیکریٹری آف اسٹیٹ جیورج مارشل کو ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسی روز دوپہر میں کلیمنٹ ایٹلی نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور تقسیم کے منصوبے سے متعلق ’پیشگی معلومات‘ شیئر کیں۔

مزید پڑھیں: افغان جنگ نے پاکستان کو ایٹمی ہتھیار رکھنے میں مدد دی، امریکی دستاویز

اگلے ہی روز وائس رائے لوئس ماؤنٹ بیٹن نے یہ منصوبہ بھارتی لوگوں کے سامنے نشر کیا جبکہ کلیمنٹ ایٹلی نے اسے برطانوی پارلیمان میں پیش کیا۔

کلیمنٹ ایٹلی نے امریکی سفیر لوئس ولیمز ڈوگلاس کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب اور بنگال سے نمائندے منتخب ہوں تاکہ یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ دو بڑے اکثریت رکھنے والے صوبے کس میں شامل ہوں گے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ دونوں صوبے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہوجائیں گے۔

اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ وہ سوچتے ہیں کہ ’پنجاب کی ایک تقسیم ممکن ہے‘ لیکن ’اس بات کا واضح امکان ہے کہ بنگال تقسیم اور ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کے خلاف فیصلہ کرسکتا ہے‘۔

کلمینٹ نے امریکی سفیر کو بتایا کہ ایسی صورت میں بنگال ایک الگ خودمختار حیثیت حاصل کرسکتا ہے اور یہ پنجاب کے لیے بھی متبادل کھول سکتا ہے لیکن ان کا خیال تھا کہ اس بات کا انتخاب کرنا اس کے لیے ناممکن ہوگا۔

دستاویز کے مطابق امریکی سفیر نے دیکھا کہ ان کے ساتھ تقسیم کے منصوبے پر بات کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ’غم میں گھرے ہوئے سنجیدہ مزاج میں تھے‘ اور ’ان کے اپنے الفاظ تھے کہ وہ 21 سال سے بھارتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے‘ اور وائس رائے ’کابینہ مشن کے منصوبے کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے ایک آخری کوشش کریں گے‘۔

اس منظوری میں ناکامی پر ’جو کہ کلیمنٹ اٹلی کو یقین تھا کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے‘ وائس رائے بھارت کی تقسیم کو ایک ہندوستان کے حصے اور ایک پاکستان کے حصے کے طور پر بھارتی رہنماؤں کے سامنے رکھیں گے۔

کلیمنٹ ایٹلی نے امریکی سفیر کو بتایا کہ ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی اگست میں کی جاسکتی ہے جبکہ ’پاکستان، جس کے پاس انتظامی مشینری نہیں، اس کی دستیابی تک اقتدار کی منتقلی منسوخ کی جاسکتی ہے‘۔

انہوں نے امریکی سفیر کو بتایا تھا کہ اگر بھارت تقسیم ہوتا ہے تو خزانے، فوج وغیرہ کی تقسیم کے مسائل ہوسکتے ہیں، جو مختلف بھارتی حاکموں کی نمائندگی کرنے والے بھارتیوں کے مشترکہ کمیشن کی جانب سے کیے جاسکتے ہیں۔

تاہم برطانوی وزیر اعظم ’پرامید تھے کہ وہاں خون ریزی نہیں ہوگی لیکن انہیں اس کے ہونے کا ڈر بھی تھا‘۔

کلیمنٹ ایٹلی نے امریکی سفیر کو بتایا تھا کہ آرڈر بحال کرنے کی ان کی کوششوں سے بھارتی فوج قائم مقام بھارتی حکومت کے وزیر دفاع کے احکامات کے تحت کام کرے گی۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن اس مناسب قانون سازی پر اعتراض نہیں کرے گی اور یہ معاملہ فوری طور پر ہوجائے گا۔

امریکی سفیر نے لکھا کہ ’ میں وزیر اعظم کا گرم جوشی سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے یہ پیشگی معلومات امریکا کو فراہم کی کیونکہ جہاں تک میرے علم میں تھا اب تک یہ بات کسی اور حکومت کو نہیں بتائی گئی تھی‘۔

20 جون 1947 کو سیکریٹری مارشل نے نئی دہلی میں امریکی سفارتخانے کو ٹیلی گرام بھیجا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ امریکا نے بھارت کی تقسیم کی مخالفت جاری رکھی تھی۔

کراچی میں امریکی سفارتخانہ

خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے سیکریٹری مارشل کی جانب سے 19 جون 1947 کو بھیجے گئے ٹیلی گرام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت منتخب کیا جاچکا ہے اور امریکا یہاں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا خواہشمند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’دھرتی سے محبت کرنے والے ہندو ہندوستان نہیں گئے‘

خبررساں ادارے کی رپورٹ میں کراچی میں امریکی قونصل ہولڈس ورتھ جی منیگروڈ کو نقل کیا کہ انہوں نے ان کے نمائندے کو بتایا کہ ’یہاں پر امریکی سفارتخانے کا قیام کا سوال امریکی حکام کی توجہ مرکوز کررہا ہے‘۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ منیگروڈ کی بات کا غلط مطلب اخذ کیا گیا لیکن ’اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں امریکی مشن کے قیام یا اس معاملے کا امریکی حکام کے زیر غور ہونے کی قبل ازوقت نشاندہی نہ ہونے کی خواہش کا بھی اظہار کیا‘۔

ہولڈس ورتھ جی منیگروڈ نے 23 جون کو کراچی سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بتایا تھا کہ رائٹرز کی رپورٹ ’مکمل جھوٹ‘ تھی اور انہوں نے 17 جون کو 8صحافیوں کے وفد کے سامنے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ کراچی میں امریکی سفارتخانے کے معاملے پر کوئی معلومات نہیں رکھتے اور وہ کوئی بیان دینے سے قاصر ہیں۔


یہ خبر 28 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں