قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین شہباز کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کو بتایا گیا کہ 18-2017 میں آڈٹ کے دوران 160 ارب روپے سے زائد کی وصولیاں کی گئیں جبکہ گرینڈ حیات ہوٹل کی منزلوں میں غیر قانونی طور پر اضافہ کیا گیا۔

شہبازشریف کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی بریفنگ کو ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔

کمیٹی اراکین نے سوال کیا کہ نیب کی بریفنگ کو موٗخر کیوں کیا گیا جس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ واپڈا اور توانائی ڈویژن کا ایجنڈا طویل ہے، ساری توانائی نیب بریفنگ کی طرف لگانا چاہتے ہیں۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں نیب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سرنش کے حوالے سے خبریں درست نہیں ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں کچھ منصوبوں سے متعلق معلومات طلب کی تھیں۔

پی اے سی کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنے ادارے کی کارکردگی پر بریفنگ دی اور محکمے میں افرادی قوت کی کمی کی شکایت کی۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ محکمے میں ایک ہزار 463 افسران اور ملازمین کی کمی ہے اور 19-2018 کا بجٹ 4 ارب 63 کروڑ روپے ہے جس میں سے 75 فیصد اخراجات ملازمین سے متعلق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مسلم لیگ (ن) کے دور کے آڈٹ اعتراضات ذیلی کمیٹی دیکھے گی،شہباز شریف

سرکاری اداروں کی آڈٹ کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محکمے نے رائل پام گالف کلب، گرینڈ حیات ہوٹل اور نیو اسلام آباد ائیر پورٹ سمیت 46 خصوصی آڈٹ کیے، اسی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)، پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)، سرکولر ڈیٹ اور اورنج لائن کا بھی خصوصی آڈٹ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تھر کول، پی آئی اے خسارہ اور نجی اسکولوں کے فیس اسٹرکچر کا بھی آڈٹ کیا گیا اور اس وقت بلین ٹری سونامی منصوبے کا خصوصی آڈٹ جاری ہے۔

محکمہ آڈٹ کی وصولیاں

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ پر ہونے والے ایک روپے کے خرچے کے مقابلہ میں 34 روپے کی وصولی ہوئی، 18-2017 میں آڈٹ کے دوران 160 ارب روپے سے زائد وصول کیے گئے۔

انہوں نے کا کہ دسمبر 2013 سے جون 2014 تک 48 ارب 71 کروڑ روپے، جولائی 2014 سے جون 2015 تک 39 ارب روپے، جولائی 2015 سے جون 2016 تک 75 ارب 22 کروڑ روپے وصول کیے گئے ۔

وصولیوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جولائی 2016 سے جون 2017 تک 70 ارب 92 کروڑ، جولائی 2017 سے جون 2018 تک 160 ارب روپے سے زائد وصول ہوئے۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ محکمے نے 2013 سے 2018 تک 394 ارب 73 کروڑ روپے کی وصولیاں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ پی اے سی کے ذمہ 2010 سے 2018 تک کے 18 ہزار 43 آڈٹ اعتراضات زیر التوا ہیں اور اس وقت 47 ہزار 500 ادارے، محکمے اور منصوبے آڈٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جن میں سے صرف 20 فیصد کا آڈٹ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے یا منصوبے کے 40 فیصد اخراجات کا آڈٹ کیا جاتا ہے لیکن افرادی قوت کی کمی کے باعث 100 فیصد آڈٹ ممکن نہیں۔

گزشتہ برس کی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 18-2017 کی آڈٹ رپورٹ فروری یا مارچ میں پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بریفنگ کے دوران محکمے کو مزید آزادی اور خودمختاری کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مالیاتی نظم و نسق اور کرپشن کے خاتمے کے لیے خودمختاری ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے بل لایا گیا لیکن کبھی منظور نہیں ہوا، آڈٹ پیراز میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی تجویز دی جاتی ہے۔

اس موقع پر پی اے سی کے اراکین نے کہا کہ آڈٹ حکام کو چاہیے کہ وہ ذمہ داروں کا بھی تعین کرے۔

مزید پڑھیں:دھمکیوں کے ذریعے خاموش نہیں کرایا جاسکتا، چیئرمین نیب

کمیٹی کے رکن اعجاز احمد شاہ نے کہا کہ ہم سب کرپشن کرپشن کی بات کر رہے ہیں،70 سال سے کرپشن ہو رہی ہے لیکن ہم سب اپنے مفاد کے تحت کہیں نہ کہیں کرپشن میں ملوث ہیں۔

اعجاز احمد شاہ نے کہا کہ اداروں پر نااہل لوگوں کو لگایا جاتا ہے، اہلیت اور نااہلیت کو بھی دیکھنا ہو گا، نیلم جہلم پراجیکٹ کو دیکھ لیں جس میں تاخیر کی وجہ سے بہت نقصان ہوا۔

شہباز شریف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ منصوبہ تو آپ کے دوست کے دور میں شروع ہوا تھا جس پر اعجاز احمد شاہ نے کہا کہ جی سر بالکل ہمارا مشترکہ دوست تھا تو شہباز شریف نے جواب الجواب میں کہا شاہ صاحب بات نکلی تو بہت دور تک جائے گی۔

گرینڈ حیات ہوٹل کا آڈٹ

آڈیٹر جنرل نے اسلام آباد کے گرینڈ حیات ہوٹل کی تعمیر اور دیگر معاملات پر آڈٹ سے آگاہ کیا اور کہا کہ 2005 میں بی این پی گروپ کو 13 ایکڑ سے زائد اراضی الاٹ کی گئی، اراضی کی لیز 75 ہزار فی مربع گز کے حساب سے 4 ارب 88 کروڑ میں دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہوٹل کے لیے اراضی کم نرخوں پر دی گئی اورلیز کی باقی رقم 4 ارب 14 کروڑ بنتی ہے جس کے لیے بینک گارنٹی بھی نہیں لی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:گرینڈ حیات ہوٹل کیس احتساب عدالت منتقل کرنے کی درخواست

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ہوٹل کی منزلوں میں غیر قانونی طور پر اضافہ کیا گیا، اراضی کی الاٹمنٹ سی ڈی اے بورڈ نے کی اور بلڈنگ کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ائر فورس سے بھی این او سی نہیں لیا گیا۔

پی اے سی نے رائل پام گالف کلب، گرینڈ حیات ہوٹل اور نیو اسلام آباد ائیر پورٹ منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ذیلی کمیٹی قائم کردی جس کے اور سربراہ سید فخر امام ہوں گے اور کمیٹی 30 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں گرینڈ حیات ہوٹل کی انکوائری رپورٹ بھی طلب کر لی اور سفارش کی کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں نقصان کے ذمہ داروں کو تعین کیا جائے اور اگر کسی ادارے نے اچھا کام کیا ہے تو اس کا بھی بتایا جائے

چیئرمین پی اے سی نے محکمہ آڈٹ کی استعداد میں اضافہ، وزارتوں کے انٹرنل کنٹرول پر بھی ذیلی کمیٹی قائم کر دی جس کی سربراہی شاہدہ اختر علی کریں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں