پاکستان میں سال نو کے پہلے دن 15 ہزار بچوں کی پیدائش متوقع

01 جنوری 2019
فیجی میں سال نو کے سب سے پہلے بچے کی پیدائش ہوگی، یونیسیف — فائل فوٹو
فیجی میں سال نو کے سب سے پہلے بچے کی پیدائش ہوگی، یونیسیف — فائل فوٹو

اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) کا کہنا ہے کہ نئے سال کے پہلے دن پاکستان میں 15 ہزار بچے پیدا ہوں گے جو پوری دنیا میں پیدا ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا 4 فیصد ہیں۔

یکم جنوری کو پیدا ہونے والے 3 لاکھ 95 ہزار 72 بچوں میں سے ایک تہائی تعداد جنوبی ایشیا میں پیدا ہوگی۔

دنیا بھر کے شہروں میں لوگ نئے سال کی خوشیاں ہی نہیں منائیں گے بلکہ اس نئے سال کے جشن کے ساتھ ساتھ گھر میں آئے ننھے مہمانوں کو بھی خوش آمدید کریں گے۔

مزید پڑھیں: یونیسیف کا پنجاب میں بچوں کے استحصال کے بڑھتے واقعات پر اظہارِ تشویش

گھڑی میں 12 بجتے ہی سڈنی میں 168 بچے پیدا ہوں گے جس کے بعد ٹوکیو میں 310، بیجنگ میں 605، میڈرڈ میں 166 اور سب سے آخر میں نیو یارک میں 317 بچے پیدا ہوں گے۔

پیسیفک میں قائم فیجی میں 2019 کا سب سے پہلا بچہ جبکہ سب سے آخری بچہ امریکا میں ہوگا۔

عالمی سطح پر نئے بچوں کی پیدائش کی کل تعداد میں سے آدھے بچے 8 ممالک میں ہی ہوں گے جن میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔

یونیسیف کے اندازے کے مطابق یکم جنوری کو بھارت میں 69 ہزار 944، چین میں 44 ہزار 940، نائیجیریا میں 25 ہزار 685، انڈونیشیا میں 13 ہزار 256، امریکا میں 11 ہزار 86، کانگو میں 10 ہزار 53، بنگلہ دیش میں 8 ہزار 428 بچے پیدا ہوں گے۔

دنیا بھر میں یکم جنوری کو خاندانوں کی جانب سے نئے مہمانوں کا جہاں استقبال کیا جائے گا وہیں چند ملکوں میں کئی بچوں کو نام تک نہیں مل پائے گا کیونکہ وہ دنیا میں اپنا پہلا دن بھی پورا نہیں کرسکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جنوری تا جون 2018: یومیہ 12 سے زائد بچوں کے جنسی استحصال کا انکشاف

2017 میں تقریباً 10 لاکھ بچے پیدا ہونے کے پہلے دن ہی انتقال کرگئے تھے اور 25 لاکھ ایک مہینہ بھی نہیں گزار پائے۔

ان بچوں میں زیادہ تر کی اموات قبل از وقت پیدائش، پیدائش کے وقت کی پیچیدگیاں اور نمونیہ جیسے انفیکشنز سے ہوئیں جو ان کے زندہ رہنے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

یونیسیف کی نمائندہ برائے پاکستان ایڈا گرما کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نئے سال کو اس عزم کے ساتھ خوش آمدید کہنا چاہیے کہ ہم ہر بچے کو اس کے جینے کا حق دیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم لاکھوں بچوں کی جان بچا سکتے ہیں اگر ہم مقامی صحت رضاکاروں کو باصلاحیت بنائیں تاکہ نئے بچے محفوظ ہاتھوں میں پیدا ہوں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں