آپ کی ٹوئٹ پاکستانی قانون کے خلاف ہے، مبشر زیدی کو ٹوئٹر کا نوٹس

03 جنوری 2019
سینئر صحافی مبشر زیدی ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ کی میزبانی کرتے ہیں— تصویر بشکریہ ٹوئٹر
سینئر صحافی مبشر زیدی ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ کی میزبانی کرتے ہیں— تصویر بشکریہ ٹوئٹر

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے پاکستان کے سینئر صحافی مبشر زیدی کو مطلع کیا ہے کہ انہیں شکایت موصول ہوئی ہے کہ ایس پی پولیس طاہر داوڑ اور سابق رکن اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل سے متعلق ان کی ٹوئٹ پاکستانی قوانین کے خلاف تھی۔

گزشتہ سال 25دسمبر کو کی گئی ٹوئٹ میں مبشر زیدی نے خیبر پختونخوا کے ایس پی طاہر داوڑ اور ایم کیو ایم کے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل کی تحقیقات پر سوالات اٹھائے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ طاہر داوڑ کے قتل کی تحقیقات کا کیا بنا؟ علی رضا عابدی کے بہیمانہ قتل کا معمہ بھی اب تک حل نہ ہو سکا جیسا اس سے قبل ہوتا رہا ہے۔

ٹوئٹر نے سینئر صحافی کو مطلع کیا کہ ان کی ٹوئٹ کے مواد کے حوالے سے انہیں شکایت موصول ہوئی ہے البتہ اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ مبشر زیدی نے پاکستان کے کس قانون کی خلاف ورزی کی۔

البتہ ٹوئٹر کی قانونی ٹیم نے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹس قانونی مشورہ نہیں اور اگر مبشر زیدی سمجھتے ہیں کہ ان سے غلطی سے رابطہ کیا گیا ہے تو وہ اپنے ذاتی وکیل یا ٹوئٹر سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔

ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ کی میزبانی کرنے والے مبشر زیدی نے کہا کہ انہیں اس بات سے شدید دھچکا لگا ہے کیونکہ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ ان سے پاکستان سے باقاعدہ طور پر رابطہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری ٹوئٹ نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کیسے کی؟‘۔

حالیہ عرصے میں ٹوئٹر کی جانب سے پاکستانی صارفین کو نوٹس بھیجنے کا رجحان دیکھا گیا ہے جس میں انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قانون کی خلاف ورزی کی۔

گزشتہ ماہ ٹوئٹر کے ترجمان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری سروسز کی دنیا بھر میں تمام صارفین تک رسائی یقینی بنانے کے لیے کوششوں کے طور پر اگر ہمیں کسی مجاز ادارے سے مستند درخواست موصول ہوتی ہے، تو یہ ضروری ہو گا کہ ہم وقتاً فوقتاً کسی خاص ملک میں مخصوص مواد تک رسائی روک دیں۔

ترجمان نے کہا تھا کہ ہم صارفین کو اس لیے نوٹس بھیجتے ہیں تاکہ انہیں قانونی درخواست کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے مفادات کے لیے اقدامات کرنے کا موقع ملے۔

گزشتہ سال اگست میں عبوری حکومت کے دوران یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ ٹوئٹر پاکستان میں پابندی کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ حکومت اس قابل نہیں تھی کہ مائیکرو بلاگنگ سائٹ سے بات منوا سکتی کہ لوگوں کے لیے کیا دیکھنا صحیح ہے یا کون سی بات جائز آزادی اظہار کے ضمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ان کی جماعت آزاد میڈیا کے خلاف کسی بھی قسم کی سینسرشپ کے خلاف ہے۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ جو لوگ قابل اعتراض یا ناشائستہ مواد نہیں دیکھنا چاہتے، وہ اس طرح کا مواد سرچ نہ کریں۔ سوشل میڈیا صرف محض تفریح کے لیے نہیں ہے۔ یہاں کاروبار کے سلسلے میں نوکریاں اور گھر چل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ بند کرنے کے سماجی اور معاشی دونوں اثرات مرتب ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں