لاہور: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے محکمہ داخلہ پنجاب نے نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی کے سربراہ آئی جی موٹرویز اے ڈی خواجہ ہوں گے۔

کمیٹی کے دیگر اراکین میں آئی ایس آئی کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) محمد احمد کمال اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا شامل ہوں گے۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ فضیل اصغر نے کہا کہ کمیٹی سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق معاملات کی تحقیقات کرے گی۔

پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بالآخر ان کی ساڑھے 4 سال سے زائد عرصے کی طویل قانونی جدوجہد رنگ لائی اور حصول انصاف کی طرف پہلا قدم اٹھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیس دفن ہو چکا ہوتا اور کسی کو قبر کا نشان بھی نہ ملتا۔

جے آئی ٹی سربراہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا 'سنا ہے اے ڈی خواجہ پیشہ ور پولیس افسر ہیں، امید ہے وہ بے گناہوں کے قتل عام کی تفتیش کے ہر مرحلے پر قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گے۔'

واضح رہے کہ گزشتہ سال 5 دسمبر کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی تھی۔

عدالتِ عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے ماڈل ٹاؤن کیس میں نئی جے آئی ٹی بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ماڈل ٹاؤن کیس میں جے آئی ٹی کا قیام، 'سپریم کورٹ نے آج اپنا قول پورا کردیا'

سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ حکومت ماڈل ٹاؤن سانحے کی ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے جارہی ہے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب حکومت نے واضح فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور صوبائی حکومت کے فیصلے سے درخواست گزار کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

درخواست گزار بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں