بنکاک ائیرپورٹ پر ’نامکمل دستاویزات‘ کی وجہ سے زیرحراست نوجوان سعودی لڑکی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’اگر انہیں آسٹریلیا میں سیاسی پناہ نہیں ملی تو ان کی زندگی کو اپنے ہی اہلخانہ سے خطرہ ہے‘۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق 18 سالہ رھف محمد مطلق القنون اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کویت کی سیاحت پر تھی جہاں سے وہ بنکاک کے راستے آسٹریلیا جانے کی کوشش کے دوران گرفتار ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘سعودی عرب میں 1979 سے قبل خواتین کو تمام سماجی حقوق حاصل تھے‘

رھف محمد مطلق القنون نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے مذہب سے متعلق کچھ باتیں کیں اور مجھے خوف ہے کہ سعودی عرب واپس بھیجنے کی صورت مجھے قتل کردیا جائے گا‘۔

اس حوالےسے زیر حراست سعودی لڑکی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’سعودی سفارتخانے نے ان کا پاسپورٹ اپنی تحویل میں لے لیا جس پر آسٹریلیا کا ویزا موجود ہے‘۔

رھف محمد مطلق القنون نے دعویٰ کہا کہ ’وہ اپنے اہلخانہ سے فرار چاہتی ہیں جو انہیں جسمانی اور ذہنی طورپر اذیت دیتے ہیں‘۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ’میرے اہل خانہ شدت پسند ہیں اور محض بال تراشنے پر 6 ماہ کے لیے کمرے میں بند کردیا‘۔

سعودی لڑکی نے کہا کہ ’مجھے سو فیصد یقین ہے کہ جیسے ہی میں سعودی جیل سے باہر آؤں گی وہ لوگ مجھے قتل کردیں گے‘۔

اس حوالے سے تھائی لینڈ کے امیگرینٹ چیف سوراشٹ ہیک پرن نے بتایا کہ ’کویت سے آنے والی سعودی لڑکی کو تھائی لینڈ میں داخلے سے روکا گیا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ان کے پاس ضروری درکار دستاویزات نہیں تھے جیسا کہ واپسی کا ٹکٹ اور پیسے تاہم وہ ایئرپورٹ کے ہوٹل میں ٹھہرائی گئی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ شادی کرنے کی خواہش مند نہیں اور اسی لیے اپنے اہل خانہ سےراہ فرار اختیار کی اور اب انہیں سعودی عرب واپس جانے پر تحفظات ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں خواتین نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی

امیگرینٹ چیف نے بتایا کہ’تھائی حکام نے معاملے سے متعلق سعودی عرب سفارتکار سے رابطہ قائم کیا ہے‘۔

اسی دوران رھف محمد مطلق القنون کے متضاد بیانات سامنے آئے جس میں انہوں نے پہلے کہا کہ وہ آسٹریلیا میں سیاسی پناہ کے لیے ٹرانزٹ کا راستہ اختیار کررہی ہیں بعدازاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاسپورٹ میں آسٹریلیا کو ویزا موجود ہے جسے سعودی اور کویتی سفارتخانے کے ترجمانوں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

اس حوالے سے امیگریشن کے سربراہ نے بتایا کہ ’سعودی لڑکی کو پیر کی صبح سعودی عرب روانہ کردیا جائےگا کیونکہ یہ ایک خاندانی مسئلہ ہے‘۔

واضح رہے کہ اس طرح ایک واقعہ اپریل 2017 میں پیش آیا جب 24 سالہ ڈینا علی لسلوم نامی سعودی خاتون کو فلپائن میں روک لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: قومی دن پرخواتین کو اسٹیڈیم میں آنے کی اجازت

وہ بھی اپنے اہلخانہ سے فرار چاہتی تھیں تاہم انہیں سعودی عرب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کینیڈا کے سیاح کا فون استعمال کرکے ویڈیو پیغام ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کہ ’ان کے اہلخانہ انہیں قتل کردیں گے‘۔

سعودی عرب پہنچنے کے بعد ڈینا علی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں