اسلام آباد: مذہبی پیشواؤں، علماء کرام اور ملک کی متعدد درگاہوں کی متولین نے کچھ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے بلا جواز فتاویٰ جاری کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے جس سے اس عمل کو محدود کیا جاسکے۔

مذکورہ مطالبہ ’سیرتِ رحمتہ اللعالمین صلیٰ اللہ علیہ وسلم ‘ کے عنوان سے پاکستان علما کونسل کی زیرِ سرپرستی ہونے والی کانفرنس میں شریک مختلف مکتبہ فکر کے رہنماؤں کی جانب سے سامنے آیا۔

کانفرس کے جاری مشترکہ اعلامیہ میں خاص کر ان افراد کی بات کی گئی جنہوں نے ریاستی اداروں، مسلح افواج اور چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف فتوے دیے، جس سے ملک کو نقصان پہنچ رہا تھا اور اس قسم کے فتاویٰ کو نہ صرف ملک کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’قتل کے فتوے دینے والوں کے خلاف سزا بڑھانے کی کوشش کریں گے‘

اسلام آباد اعلامیہ کے عنوان سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 2019 ملک سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ فسادات کے خاتمے کا سال ہوگا۔

کانفرنس کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ ملک میں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کو ختم نبوت کے معاملے پر سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ مذہبی عقائد کو جواز بنا کر کسی کو قتل کرنا اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ اسلام کے کسی بھی مکتبہ فکر کے پیروکاروں کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی مسلم اور غیر مسلم کو موت کا سزاوار ٹھہرایا جاسکتا ہے، صرف عدالت ہی سزائے موت دے سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: جن لوگوں نے قتل کے فتوے دیے پتہ نہیں وہ مفتی بھی ہیں کہ نہیں، چیف جسٹس

اعلامیے کے مطابق ملک میں تمام مسالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مساوی آئینی حقوق حاصل ہیں اور وہ اپنی روایات اور ثقافت کے تحت ملک میں زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

کانفرس کے شرکا کا کہنا تھا کہ تمام مذہبی گروہوں کے رہنماؤں نے سیکیورٹی اداروں اور اس کی قیادت کے خلاف دیے گئے فتاویٰ کی مذمت کی اور اس قسم کی کارروائیوں کو قرآن و سنت کی خلاف ورزی قرار دیا۔

علاوہ ازیں شرکا نے حکومت پر بلاجواز اور غیر سنجیدہ طور پر دیے جانے والے فتاویٰ پر نظر رکھنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے زور دیا، خاص کر ایسے فتاویٰ جن کا تعلق انتہائی سنجیدہ معاملات مثلاً ختم نبوت سے ہو۔


یہ خبر 7 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں