لاہور: ہر سال کی طرح اس سال بھی سعودی عرب اور قطر کے شاہی خاندان کی جانب سے پنجاب کے مخصوص علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مقرر کردہ فیس کی ادائیگی کے بعد تلور کے شکار کا سلسلہ جاری ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ سردیوں کے موسم میں ہجرت کر کے نسبتاً گرم علاقوں میں آنے والے اس پرندے کا محدود پیمانے پر شکار کرنے سے اس کے معدوم ہونے کا خدشہ نہیں جبکہ دوسری جانب حکام متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندانوں کے اراکین کی بھی آمد کے منتظر ہیں۔

واضح رہے کہ ہر سال پاکستان میں تلور کے شکار کا سیزن یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے اور 31 جنوری تک جاری رہتا ہے اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں یہ شکار سب سے زیادہ کیا جاتا ہے جس کے لیے عرب حکمران ہر سال آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: قطری شہزادے کو تلور کے شکار کی اجازت

اس بارے میں حکام نے بتایا کہ شاہی خاندانوں نے وفاقی حکومت کو تلور کے شکار کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی ہیں اور تقریباً اتنی ہی رقم شکارگاہ کے تعین کے لیے حکومتِ پنجاب کو بھی ادا کی گئی ہے جبکہ شکار کرنے کی مدت 10 دن ہے جس کے دوران ہر گروپ کو 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوگی۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت تقریباً 3 سال سے شکار پر کسی قسم کی فیس وصول نہیں کررہی تھی، انہوں نے بتایا کہ سعودی شاہی خاندان کا گروپ وہاڑی، ملتان، میانوالی اور سرگودھا میں متعین کردہ شکارگاہوں میں شکار کرے گا۔

دوسری جانب قطر سے آنے والے لیہ، خوشاب، جھنگ، اور بھکر جبکہ دبئی کے شاہی خاندان کے افراد مظفر گڑھ، بہاولپور سمیت بہاولنگر کے قلعہ عباس اور ابو ظہبی سے آنے والے افراد کے لیے رحیم یار خان، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور چکوال میں شکار گاہ متعین کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: تلور کا غیر قانونی شکار: 4 عرب باشندوں سمیت 8 گرفتار

اس ضمن میں حکام کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر لازمی فیس لاگو کی گئی اور اگر رہائش کی مدت 10 روز سے زیادہ ہوئی تو مزید ڈیڑھ کروڑ تک کی رقم ادا کرنا ہوگی، اس رقم کا نصف حصہ مذکورہ علاقوں کے ترقیاتی کاموں، 35 فیصد تلور کی افزائش اور 15 فیصد سیکیورٹی پر خرچ کیا جائے گا۔

اس سلسلے میں ایک باز کو اپنے ساتھ لانے اور واپس لے جانے پر ایک لاکھ روپے سے زائد ادا کرنے ہوں گے اور اگر 100 تلور کی متخص تعداد سے زیادہ شکار کیا گیا تو فی پرندہ 1 لاکھ روپے سے زائد جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

یہ بھی یاد رہے کہ شکار صرف باز کی مدد سے کرنے کی اجازت ہوگی اور آتشی اسلحے کا استعمال ممنوع ہوگا جبکہ صرف وہ معززین شکار کرسکتے ہیں جنہیں اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ ان کے لیے پیشگی کیمپ نصب کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے جنہیں اس کے واپس جانے کے 7 روز کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: دبئی کے شاہی خاندان کو تلور کے شکار کا لائسنس جاری

حکام نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت کے تحت صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں، اس سلسلے میں ایک کمیٹی چیف سیکریٹری کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے جس میں دیگر متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کا کام شکار گاہوں کے لائسنس اور ان کی منظوری، ضلعی ترقیاتی کمیٹیوں کی بتائی گئی اسکیموں کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنا اور دستیاب فنڈز کی ضرورت اور مانیٹرنگ میں اضافے جبکہ استعمال کے حوالے سے کام کرنا ہے۔

یاد رہے کہ 28 نومبر 2014 کو بلوچستان ہائی کورٹ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے خلاف بلوچستان کے محکمہ جنگلات نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس کے بعد 19 اگست 2015 میں سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کرتے ہوئے پابندی برقرار رکھی تھی۔

تاہم 22 جنوری 2016 کو سپریم کورٹ نے حکومت کی اپیل پر تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کردی تھی۔ بعد ازاں جنوری 2018 میں لاہور ہائیکورٹ نے پھر شکار پر پابندی لگادی تھی جو اسی ماہ میں اٹھالی گئی تھی۔


یہ خبر 7 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں