عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات نئے پاکستانی سفیر کی پہلی ترجیح

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2019
ٹرمپ نے بھی نئی پاکستانی قیادت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا — فائل فوٹو
ٹرمپ نے بھی نئی پاکستانی قیادت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا — فائل فوٹو

واشنگٹن: پاکستان اور امریکا کے قریبی تعلقات کو نئی جہت بخشنے کے لیے امریکا کے لیے پاکستان کے نئے سفیر واشنگٹن پہنچ چکے ہیں جن کےاولین مقاصد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے درمیان ملاقات کے مواقع تلاش کرنا ہے۔

ڈاکٹر اسد مجید اب تک جاپان کے شہر ٹوکیو میں بطور پاکستانی سفیر تعینات تھے جو علی جہانگیر صدیقی کی جگہ واشنگٹن میں سفیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے لیے وہاں پہنچے۔

خیال رہے کہ علی جہانگیر صدیقی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نامزد کیا تھا جس پر انہیں خاصی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا البتہ اس کے باوجود وہ 7 ماہ سے زائد اس عہدے پر تعینات رہے۔

واضح رہے کہ 2 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن عمل کی امریکی کوششوں پر وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ میں پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کا منتظر ہوں اور مستقبل بعید میں اس پر عمل کریں گے‘۔

رواں ہفتے امریکی، پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں کے سفارتی حلقے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔

تاہم واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا تھا کہ اس قسم کی ملاقات صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوسکے۔

مزید پڑھیں: ’امریکا، پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی مضحکہ خیز کوشش کر رہا ہے‘

واضح رہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی متعدد ادوار ہوچکے ہیں تاہم اب یہ مذاکرات آئندہ ماہ سعودی عرب میں متوقع ہیں، لیکن اسے اب تک حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

ڈاکٹر اسد مجید جو واشنگٹن میں 2015 تک نائب سفیر کے فرائض انجام دے چکے ہیں، ان سے توقع ہے کہ وہ اس معاملے پر زیادہ توجہ دیں گے جس سے تجارتی شراکت داری زیادہ پائیدار ہوگی۔

دوسری جانب ان کے لیے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ امریکی حکومتی حلقوں میں پاکستان کے لیے مضبوط لابنگ کریں جو دونوں ممالک کے تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی تھی لیکن اندرونی اختلافات اور عدم دلچسپی کے باعث غیر فعال ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر امریکی ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی

اس سلسلے کی تجدید کے لیے سابق سفیر علی جہانگیر صدیقی نے کچھ کوششیں ضرور کیں لیکن وہ اپنی مختصر مدت کے دوران اس میں کوئی خاص پیش رفت دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

خیال رہے کہ نئے پاکستان سفیر کی پاکستان اور امریکا کے تعلقات پروان چڑھانے کی کوششوں میں امریکا کی جانب سے پاکستانی سفرا پر عائد سفری پابندی بھی حائل ہوگی جس کے تحت ان کے لیے بغیر اجازت 25 میل سے زائد احاطے سے باہر جانے پر پابندی ہے۔


یہ خبر 8 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں