شامی کرد ملیشیا سے متعلق امریکی مشیر کا بیان ’سنگین غلطی‘ ہے، اردوان

08 جنوری 2019
جون بولٹن کی جانب سے  دیے گئے پیغام کو قبول کرنا ممکن نہیں، ترک صدر — فائل فوٹو
جون بولٹن کی جانب سے دیے گئے پیغام کو قبول کرنا ممکن نہیں، ترک صدر — فائل فوٹو

ترک صدر رجب طیب اردوان نے شام میں امریکی حمایت یافتہ کُرد ملیشیا سے متعلق وائٹ ہاؤس کے مشیر برائے قومی سلامتی جون بولٹن کے بیان کو ’سنگین غلطی ‘ قراردے دیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کے مطابق رجب طیب اردوان کا بیان ترک دارالحکومت میں اردوان کے مشیر ابراہیم کالن اور جون بولٹن کے درمیان 2 گھنٹے طویل ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

خیال رہے کہ امریکی مشیر قومی سلامتی نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے سے متعلق ترک صدر کے مشیر سے اہم ملاقات کی تھی۔

ترک صدر نے اپنی جماعت کے پارلیمانی اراکین کو بتایا کہ ’جون بولٹن کی جانب سے اسرائیل میں دیے گئے پیغام کو قبول کرنا ممکن نہیں ‘۔

مزید پڑھیں : امریکا کا شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ

انقرہ میں جون بولٹن کی آمد سے 2 روز قبل انہوں نے اسرائیل میں کہا تھا کہ ’شام سے امریکا کی واپسی اس کی حمایت یافتہ کرد فورسز کی حفاظت سے مشروط ہے جنہیں ترکی کی جانب سے دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے‘۔

رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ’جون بولٹن نے مذکورہ معاملے میں سنگین غلطی کی ہے‘۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر میں شام میں داعش کے خلاف جنگ میں کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ کیا تھا۔

اس حوالے سے ترک صدر نے نیویارک ٹائمز میں شائع کیے گئے ایک کالم میں جنگ زدہ شام سے انتہاپسندی کی وجوہات کے خاتمے سے متعلق ترکی کی حکمت عملی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے انخلا کا صحیح فیصلہ کیا‘۔

ناقابل یقین الزام

اس سے قبل امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے بھی کُرد فورسز سے متعلق بیان دیا تھا کہ واشنگٹن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد انقرہ شام میں کرد فوجیوں کا قتل عام نہیں کرے گا۔

رجب طیب اردوان نے اس بیان پر کہا کہ ’ ترکی کردوں کو نشانہ بناتا ہے یہ ناگوار ترین، ناقابل یقین الزام ہے‘۔

امریکی ترجمان نے انقرہ میں مشیر قومی سلامتی کی ملاقات سے متعلق ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ ’ جون بولٹن نے فوجی انخلا سے متعلق ابراہیم کیلن سے بات چیت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں : امریکی افواج کی شام سے واپسی، ترکی کا داعش کے خلاف جنگ کی سربراہی کا اعلان

گیریٹ مارکیوس نے لکھا کہ ’ انہوں نے شمال مشرقی شام سے مناسب وقت پر انخلا کے فیصلے پر تبادلہ خیال کیا اور دیگر مسائل کی نشاندہی بھی کی‘۔

خیال رہے کہ جب 19 دسمبر کو امریکی صدر نے 2 ہزار فوجیوں کے دستوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا تب انقرہ واحد نیٹو اتحادی تھا جس نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔

ترک صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے وعدہ کیا تھا کہ ترکی، شام میں داعش کا مکمل خاتمہ کرسکتا ہے۔

انہوں نے نیو یارک ٹائمز میں شام میں جیت کے قبل از وقت اعلان سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ دہشت گرد گروہ کے خلاف ایک فوجی فتح صرف پہلا قدم ہے‘۔

’کوئی رعایت نہیں‘

گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ داعش کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’ ہم شام سے مناسب وقت پر واپس جائیں گے جبکہ اسی دوران داعش کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اقدامات بھی کریں گے‘۔

نیو امریکن سیکیورٹی کے تجزیہ کار نکوہلس ہیراس کا کہنا تھا کہ داعش کے مکمل خاتمے کے لیے انقرہ کو واشنگٹن کے تعاون کی ضرورت ہوگی اس وجہ سے شام میں امریکی فوج کا موجود ہونا ضروری ہے۔

خیال رہے کہ امریکا شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کی حمایت یافتہ کردش پیپلز فیڈریشن یونٹس ( وائے پی جی) کے ساتھ کام کررہا تھا۔

مزید پڑھیں : شام سے امریکی فوج کے متنازع انخلا کی دستاویز پر دستخط

تاہم ترک امریکا تعلقات وائے پی جی کو امریکی فوجی تعاون کے حوالے سے ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ترکی، کرد باغیوں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے جس کی ایک شاخ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی ہے، جو ترکی کے سرحدی علاقے میں کرد خود مختاری کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔

ترک صدر کے حالیہ بیان سے وائے پی جی کے مستقبل سے متعلق عدم اتفاق کو ظاہر کیا ہے، ترک صدر نے دہشت گردی کی نئی تعریف سامنے لانے پر واشنگٹن کی سرزنش کی۔

انہوں نے کہا کہ ’ ایسی کوئی چیز ممکن نہیں‘ انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ انقرہ وائے پی جی کے خلاف جنگ میں کوئی رعایت نہیں کرے گا۔

رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ’ شام میں دہشت گرد میں موجود افراد ضرروی سبق سیکھیں گے، ہماری نظر میں پی کے کے اور وائے پی جی کے درمیان کوئی فرق نہیں‘۔

فضائی تعاون

ترک صدر نے دسمبر میں شام کے شمالی علاقے میں دریائے عرفات کے ساتھ وائے پی جی کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی وقت بھی شروع کیا جاسکتا ہے تاہم شام سے فوجی انخلا پر امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد اب انہوں نے اس میں تاخیر کا اشارہ دیا تھا۔

بعد ازاں نے ترکی نے شام اور اس سے ملحقہ سرحد پر فوجی دستے روانہ کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : شام سے امریکی فوج کے انخلا سے داعش کو مدد ملے گی، کرد فورسز

ترک فوج کے تجزیہ کار میٹن گرکن کا کہنا تھا کہ انقرہ اس وقت ہوائی اڈے کے مسئلے کی وجہ سے آپریشن میں تاخیر کی، یہ موضوع آج ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل تھا۔

میٹن گرکن کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ امریکا فضائی اڈے سے انخلا کرے گا یا نہیں لیکن اگر واشنگٹن ایسا کرتا ہے تو انقرہ کو کسی بھی آپریشن کے لیے ماسکو کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔

خیال رہے کہ ترک فورسز نے شام کے شمال علاقے میں داعش کے خلاف اگست 2016 اور کرد فورسز کے خلاف جنوری 2018 میں حملوں کا آغاز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں