اقتصادی رابطہ کمیٹی اجلاس، بیوروکریٹس کی ادھوری تیاری پر وزیر خزانہ برہم

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2019
اقتصادی رابطہ کونسل کا اجلاس وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں منعقد ہوا—فوٹو بشکریہ حکومت پاکستان ٹوئٹر
اقتصادی رابطہ کونسل کا اجلاس وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں منعقد ہوا—فوٹو بشکریہ حکومت پاکستان ٹوئٹر

اسلام آباد: رواں برس کپاس کی پیداوار میں 24 فیصد کمی کے باعث وزیر خزانہ اسد عمر نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کونسل (ای سی سی) کے سامنے ادھورے منصوبے پیش کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد اور پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کا معاملہ دوبارہ متعلقہ وزارتوں کو واپس بھیج دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقتصادی رابطہ کونسل کا اجلاس صرف ایک معاملے پر مشتمل ایجنڈے، ٹیکس اور کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد پر غور کے لیے منعقد ہوا۔

اجلاس میں حبکو کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کی بحالی پر پریزینٹیشن پیش کی گئی جو اجلاس کی سربراہی کرنے والے وزیر خزانہ اسد عمر کو مطمئن نہ کرسکی۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی سی کا پہلا اجلاس، بجلی کے نادہندگان کیلئے پری پیڈ میٹرز لگانے کی تجویز

اجلاس میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ جب پریزینٹیشن دینے والے بیوروکریٹس اس ضمن میں پوچھے جانے والے سوالات کا جواب نہ دے سکے تو وزیر خزانہ اس موقع پر برہم نظر آئے۔

ذرائع کے مطابق پریزینٹیشن دینے والوں کو ڈیوٹی فری کپاس کی برآمد کے پاکستانی معیشت پر مرتب ہونے والے فوائد اور اس سے حاصل ہونے والی ہونے والے آمدنی کے نقصان کی الگ الگ وضاحت کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔

تاہم ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹس اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس پر وزیر خزانہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کس قسم کا مذاق ہے، ایک ایجنڈا ہونے کے باوجود آپ لوگ اجلاس میں تیاری کرکے شریک نہیں ہوئے‘۔

بعدازاں اجلاس کے حوالے سے جاری کردہ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’کمیٹی نے تجارت اور آمدن کے اعدادوشمار کی تفصیلات طلب کی ہیں جسے تجویز کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے معاشی کمیٹیوں کی تشکیل نو کردی

چنانچہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں کو اعداد و شمار کی خامیوں کو دور کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے تاکہ اس حوالے سے بہتر فیصلہ کیا جاسکے۔

اس ضمن میں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے اجلاس میں کہا تھا کہ جب وزارت ایک بڑا فیصلہ کرے تو اس کے ساتھ اس بات کا خلاصہ بھی سامنے موجود ہو کہ ڈیوٹی فری کپاس کی درآمد کے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر کیا اثرات ہوں گے اور یہ وفاقی بورڈ آف ریونیو کو کس طرح متاثر کرے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں وزیراعظم پیکج برائے فروغ برآمدات کے لیے 10 جنوری 2017 کو ٹیکسٹائل کی صنعت کو متعدد سہولیات فراہم کی گئی تھیں جس میں درآمد شدہ کپاس سے ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ بھی شامل تھا اور اس کا اطلاق 16 جنوری 2017 سے کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کو زرعی شعبے روزگار کی فراہمی کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ

دوسری جانب اجلاس میں حب پاور کمپنی (حبکو) کے چیف ایگزیکٹو خالد منصور کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے ایک تفصیلی پریزینٹیشن پیش کی گئی تھی تاہم اس میں کوئی حتمی حل موجود نہیں بلکہ صرف کچھ ابتدائی اندازے موجود تھے۔

اس کے ساتھ انہوں نے اسٹیل ملز کے مستقبل کے حوالے سے تجویز پیش کرنے کے لیے مارچ تک کی مہلت دیے جانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

تاہم ماضی میں وزیر خزانہ اسد عمر کے ساتھ اینگرو کارپوریشن میں بھی ساتھ کام کرنے والے خالد منصور کو جلد اس حوالے سے کام مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں