برطانوی وزیراعظم کی بریگزٹ معاہدے پر مشکلات میں مزید اضافہ

10 جنوری 2019
تھریسامے کے خلاف ان کی جماعت کے درجنوں اراکین نے بھی ووٹ دیا—فوٹو:اے ایف پی
تھریسامے کے خلاف ان کی جماعت کے درجنوں اراکین نے بھی ووٹ دیا—فوٹو:اے ایف پی

برطانوی ہاؤس آف کامنز کے اراکین نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم تھریسامے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف ووٹ دے دیا جو پارلیمنٹ میں 24 گھنٹوں میں ان کی دوسری شکست ہے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی ایم پیز نے تھریسامے کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیا اور اب اگلے ہفتے ہونے والی اہم ووٹنگ میں ناکامی کی صورت میں وزیراعظم کو متبادل منصوبہ صرف تین دن میں پیش کرنا ہوگا۔

ہاؤس آف کامنز کی ووٹنگ میں اراکین نے حکومت کو بریگزٹ کے حوالے سے متبادل منصوبہ پیش کرنے کے لیے وقت کو 21 دن سے کم کر کے صرف 3 دن تک محدود کردیا ہے۔

بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا۔

یہ بھی پڑھیں:بریگزٹ معاہدے میں ناکامی حکومت گرا سکتی ہے، برطانوی وزیراعظم

رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے مخصوص ٹیکس کے خلاف اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ دے کر تھریسامے کو پسپائی پر مجبور کردیا تھا۔

تھریسامے نے ووٹنگ سے قبل اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ‘کسی معاہدے سے بچنے کے لیے واحد راستہ معاہدے کے لیے ووٹ دینا ہے’ لیکن ان کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم فوری جواب دیں گے اور آگے بڑھنے کے لیے حل پیش کریں گے’۔

حزب اختلاف لیبر پارٹی کے ترجمان کیئر اسٹار مر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اراکین پارلیمان تھریسامے کے متبادل منصوبے پر بحث کرسکتے ہیں اور بریگزٹ کے تاخیر کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ہاؤس آف کامنز میں ان کا کہنا تھا کہ ‘میں حقیقی طور پر سمجھتا ہوں کہ رواں سال 29 مئی تک ہم یہ نہیں کرسکتے، یہ کئی لحاظ سے قابل عمل نہیں ہے’۔

مزید پڑھیں:برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ پر ووٹنگ جنوری تک ملتوی کردی

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ان پہلووں پر غور کرنا ہے جو عملی طور پر اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں’۔

قبل ازیں دسمبر میں برطانوی حکومت نے معاہدے پر ووٹنگ کو شکست کے خوف سے ملتوی کردیا تھا اور واضح شکست سے بچ گئے تھے اور اس عمل کو 14 جنوری تک ملتوی کردیا تھا اور اگلے ہفتے فیصلہ کن ووٹنگ ہوگی۔

’معاہدے کے حوالے سے کوئی خوف نہیں’

تھریسامے نے اراکین پارلیمان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے معاہدے کو مسترد کردیا تو بھی برطانیہ 29 مارچ کو نئے انتظامات کے ساتھ یا اس کے بغیر بھی یورپی یونین سے باہر نکل آئے گا۔

خیال رہے کہ مارچ 2017 میں برطانوی کو یورپی یونین سے نکلنے کے لیے دو سال دیے گئے تھے جبکہ رواں ہفتے ہی تھریسامے کے ایک وزیر نے اس منصوبے میں تاخیر کے لیے آواز بلند کی تھی لیکن انہوں نے اس خیال کو مسترد کردیا تھا۔

گزشتہ روز حکومت کے ٹیکس اختیارات کے خلاف حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کے درجنوں اراکین سمیت 303 ایم پیز نے ووٹ دیا جبکہ وزیراعظم کے حق میں 296 ووٹ پڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:بریگزٹ معاہدے پر ووٹ سے قبل برطانوی وزیر نے ’پلان بی‘ پیش کردیا

پارلیمان میں اس گھمبیر صورت حال کے باوجود حکومت کا اس بات پر اصرار ہے کہ یہ حالات موافق نہیں لیکن یورپی یونین سے نکلنے کی تیاریوں کو روکا نہیں جائے گا۔

بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جبکہ 297 اراکین وزیراعظم کے حق میں رہ گئے۔

اس ترمیم کے بعد تھریسامے کے لیے صورت حال مزید مشکل ہوگئی ہے اور اگر اگلے ہفتے ہونے والی ووٹنگ میں بھی وہ ہار جاتی ہیں تو پھر انہیں اپنے بریگزٹ منصوبے سے پارلیمان کو محض 3 دن میں آگاہ کرنا پڑے گا جو 21 جنوری سے پہلے ہی ہوگا۔

جس کے بعد وہ سات روز کے اندر ہاؤس آف کامنز میں ایک قرارداد لاسکیں گے جہاں اراکین حکومتی حکمت عملی میں تبدیلی کے لیے اپنے رائے دے سکیں گے۔

دوسری جانب لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ اگلے ہفتے ہونے والی ووٹنگ میں ناکامی کی صورت میں وہ وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد لائیں اور متوقع طور پر عام انتخابات کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔

یاد رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں