سپریم کورٹ نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست مسترد کردی

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2019
راؤ انوار پر نقیب اللہ محسود سمیت دیگر افراد کو کراچی میں جعلی انکاؤنٹر کے دوران قتل کرنے کا الزام ہے — فائل فوٹو
راؤ انوار پر نقیب اللہ محسود سمیت دیگر افراد کو کراچی میں جعلی انکاؤنٹر کے دوران قتل کرنے کا الزام ہے — فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست مسترد کردی۔

واضح رہے کہ راؤ انوار پر نقیب اللہ محسود سمیت دیگر افراد کو کراچی میں جعلی انکاؤنٹر کے دوران قتل کرنے کا الزام ہے تاہم وہ ابھی ضمانت پر ہیں۔

راؤ انوار نے عدالت میں عمرہ کرنے اور بیرون ملک میں اپنی بیٹی کی شادی میں جانے کے لیے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی۔

تاہم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار کی پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے ان کے وکیل کو مخاطب کر کے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’راؤ انوار بری کيسے ہو گيا‘، جس پر وکیل نے بتایا کہ ’راؤ انوار ضمانت پر ہیں‘۔

مزید پڑھیں: پولیس افسر راؤ انوار ریٹائر

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کے اہلخانہ بیرون ملک میں ہیں، اور وہ ان سے ملنے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راؤ انوار کے اہل خانہ کو بھی پاکستان بلا لیں، راؤ انوار کا پاسپورٹ ضبط کر لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’راؤ انوار نے جوان بچہ مار دیا، جب تک ٹرائل مکمل نہیں ہوتا وہ پاکستان میں ہی رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ راؤ انوار کو کیسا پکڑوایا گیا یہ ہمیں پتا ہے، اور اسے دوران حراست تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

نقیب اللہ کیس

13 جنوری 2018 کو کراچی میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا تھا، جنہیں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جھنگوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک کپڑے کی دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

بعد ازاں مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئی تھیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع بھی دیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ڈرامائی طریقے سے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوگئے تھے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس کے بعد یہ معاملہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کو منتقل کردیا گیا تھا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی تھی۔

عدالت میں زیرِ سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔

تاہم ان کا نام اب بھی ای سی ایل میں شامل ہے جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں