ایف ایس اعجازالدین مصنف ہیں۔
ایف ایس اعجازالدین مصنف ہیں۔

سفر کرنے سے ذہن وسیع ہوتا ہے اور بٹوا بھی بھرجاتا ہے، اور ہمارے وزیرِاعظم جناب عمران خان کے ساتھ آج کل بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ وہ امداد جمع کرنے کا اپنا تجربہ ملائیشیا کے وزیرِاعظم مہاتیر محمد، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید جیسے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے کافی بڑھا چکے ہیں۔

وزیرِاعظم کے دوروں سے ہمارے ملکی خزانے میں (وقتی طور پر ہی سہی) لیکن اضافہ ضرور ہوا ہے۔ لیکن اس کی قیمت چکانے کے لیے ہمیں اپنا بین الاقوامی قد و قامت اس حد تک گرانا پڑا کہ جیسے ہماری علاقائی سطح پر کوئی خاص اہمیت ہی نہیں۔

وہ خودداری کہاں گئی جو ہم نے لاہور میں 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرس کا انعقاد ممکن بنانے کے لیے ثابت کی تھی؟ کہاں ہے وہ ہماری خود ساختہ ناگزیر اہمیت جو ہمیں دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کے ایک اہم اتحادی کے طور پر حاصل ہوئی تھی؟ کہاں ہے وہ ایشین ٹائگر بننے کا خواب؟ سب فنا سب ختم۔

بطورِ واحد اسلامی ایٹمی قوت اپنے دشمنوں کو گھٹنوں کے بل جھکانا تو دُور کی بات، اب تو ہم کسی دیوالیہ ہوچکے شخص کی طرح سعودی عرب، چین، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے آگے التجائیں کر رہے ہیں (کہ بھائی ہمیں کام کے لیے کچھ پیسے ادھار مل سکتے ہیں؟)۔ اس صورتحال میں ان کو تو ہم قرضہ مانگ مانگ کر گزارا کرنے والی قوم کے طور پر نظر آتے ہوں گے جو (جووینل کے تیکھے مقولے کے مصداق) ‘پُرعزم غربت کے حالات میں زندگی گزارتی ہے۔‘

کیا ہم کبھی کشکول توڑ پائیں گے؟ جو ہر کچھ عرصے بعد ہمارے ہاتھوں میں آجاتا ہے جیسے یہ کوئی قیمتی خاندانی میراث ہو۔ کیا ہم کبھی اس ریاست کو اتنا ہی امیر دیکھ سکیں گے جتنے امیر یہاں کے رہنما ہیں؟ کیا ہمارے سیاستدان کبھی اپنے ووٹرز کی اس جائز خواہش کو پورا کرسکیں گے کہ پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے جو تکثیریت پسند ہو اور جہاں فعال جمہوری عمل ہو اور ہر ایک ووٹ کو اہمیت حاصل ہو؟ اور کب ہمارے منتخب نمائندے موت کی طرف بڑھتے اس تماشے کو بند کریں گے؟ مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔

جلد ہی عدم اطمینان سے بھرپور اگلی شدید گرمیاں آئیں گی اور پھر یہ گرمیاں ایک الگ قسم کی گلوبل وارمنگ کے باعث اور بھی بدترین ہوجائیں گی۔ تاریخ دان رابرٹ ڈارنٹن کے مطابق ‘سیاست میں بھی ماحولیاتی تبدیلی آئی ہے، جس میں تعصب، زبان درازی، جھوٹ اور ناشائستگی نے عوامی زندگی کے ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اخلاق و انسانیت کی تحفظ فراہم کرنے والی تہہ جس کے باعث بات کہنا ممکن ہوتا ہے، وہ اب زمین کے گرد اوزون تہہ کی طرح ہی غائب ہوتی جا رہی ہے۔‘

ویسے تو ڈارٹن کے ان جملوں کا ہدف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں لیکن وسیع تناظر میں یہ ہمارے جیسے کئی ملکوں پر بھی مصداق ٹھہرتے ہیں۔ ان پر ہر اس شخص کو پوری توجہ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کی بات یا تحریر پر بجلی گرنے کے امکانات نہیں ہوتے۔

اس کے باوجود آئیے ہم فولادی نظروں سے اپنی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ 6 ماہ قبل ہم نے جس پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے 22 ارب روپے خرج کیے تھے وہ ساکت اور کمزور بنی ہوئی ہے، جبکہ اس کے اراکین کسی قسم کی کوئی خاص کارکردگی پیش کیے بغیر تمام مراعات اور اختیارات کے مزے لے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں (ایک کروڑ 69 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا (1 کروڑ 29 لاکھ ووٹ لینے والی) پاکستان مسلم لیگ (ن) اور (69 لاکھ ووٹ لینے والی) پیپلزپارٹی کے ساتھ رویہ کنٹینر والے اخلاق سے سرشار بالکل ویسا ہی ہے جس کو لے کر انتخابی مہم کے دوران دونوں جماعتوں کا تمسخر اڑایا گیا تھا۔

منتخب احتساب کا طریقہ اب منکشف ہوچکا ہے، بار بار اس بے ثمر طریقے کو دہرایا گیا ہے مگر کسی کو کوئی سزا نہیں ہوتی۔ طاقت بکھر چکی ہے۔ ہندوستان میں مؤثر طاقت کا بہاؤ عمودی (اوپر سے نیچے کی طرف) یعنی نئی دہلی سے ہوتا ہوا دیگر ریاستوں تک پہنچتا ہے۔ لیکن پاکستان میں طاقت کا بہاؤ 2 مختلف مراکز سے ہوتا ہے، جن میں سے ایک اسلام آباد ہے اور دوسرا پنجاب کے اندر۔

دیگر ممالک، حتیٰ کہ برطانیہ بھی، ہمارے پیچیدہ رویے کو حیران، ہمدردانہ اور مایوس نظروں سے دیکھتے ہوں گے۔ برٹش میں بریگزٹ (BREXIT) کرسمس پر ہونے والے پتلی تماشے کی طرح ختم ہوا۔ ہمارے پاس تو کرسمس کے اگلے روز کا تماشا بھی جاری ہے۔

دیگر جمہوریتیں ضرور یہ سوچتی ہوں گی کہ آخر ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے لیے اپنی کڑواہٹ کم کیوں نہیں کرسکتے، کیوں وہ ایک دوسرے سے جارحانہ رویے کے بغیر بات چیت نہیں کرسکتے؟

ان میں سے شاید ترک ہمیں کوئی مشورہ دینے کی بہترین حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں ترکی اور ایران کے ساتھ ہمیں امریکا کے ڈیزائن کردہ ریجنل کو آپریشن فار ڈیولپمنٹ نامی گاڑی سے باندھ کر قابو میں لایا گیا۔ حالیہ عرصے کی بات کریں تو ترکی کے ہمارے رہنماؤں کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ذاتی نوعیت کے تعلقات رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی جوانی کے 7 برس ترکی میں گزارے اور ترک زبان پر عبور بھی حاصل کرلیا۔ مانا جاتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی ترک کمپنیوں کے ساتھ نفع بخش کاروباری شراکت داریاں ہیں۔

شہباز شریف جب پنجاب کے وزیرِاعلیٰ تھے تو انہوں نے اپنے معنی خیز لیکن بدبخت مہنگے منصوبوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے ترک ماڈلز کو استعمال کیا۔ اب وزیرِاعظم خان نے صدر اردوان کے سابق اتحادی اور موجودہ مخالف، امریکا میں مقیم ترک عالم فتح اللہ گولن کے قائم کردہ 25 کیمپسز پر پابندی عائد کرتے ہوئے ترک صدر کو اپنا احسان مند بنا دیا ہے۔ ان کیمپسز کے 11 ہزار طلبہ کو اب ایسے اسکولوں کو تلاش کرنا ہوگا جن کا نصب العین یا موٹو ‘2 ممالک، ایک قوم‘ جیسا گمراہ کن نہ ہو۔

صدر اردوان کے ابتدائی برسوں میں ترک فوج کے ساتھ ان کا جو ٹکراؤ رہا اس کے گھاؤ اب تک ان پر ہرے ہیں۔ کیا وہ اپنے پاکستانی مہمان کو 2 ڈریگنز کے مشہور ترک قصے کی کتاب دینا چاہتے تھے؟ جس میں ایک ڈریگن کے کئی سر ہوتے ہیں اور ایک پونچھ ہوتی ہے، جبکہ دوسرے ڈریگن کا ایک ہی سر ہوتا ہے لیکن متعدد پونچھیں ہوتی ہیں۔ متعدد سروں والے ڈریگن کے سر آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے ہیں جبکہ واحد سر والے ڈریگن کی پونچھیں اس کی تابع ہوتی ہیں۔

پاکستانی ووٹرز اس ترک قصے کے آخری حصے سے بڑی حد تک واقف ہیں، جی ہاں واحد سر والا ڈریگن دوسرے کو کھا کر زندہ رہتا ہے۔


یہ مضمون 10 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں