خاتون کا ڈھانچہ جرمنی کے ایک خانقاہ میں موجود ہے—فوٹو: سی این این
خاتون کا ڈھانچہ جرمنی کے ایک خانقاہ میں موجود ہے—فوٹو: سی این این

جرمنی کے خانقاہ میں موجود قرون وسطیٰ کے زمانے کی خاتون کے ایک ڈھانچے پر تحقیق کرنے والی ٹیم کو عورت کے دانتوں سے صدیوں پرانے نایاب پتھر ملنے کے بعد ایک نئی تاریخ دریافت کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں کو خاتون کے دانتوں سے کسی زیور کی مانند نایاب نیلا پتھر ملا ہے، جس سے ایک نئی تحقیق کے دور کا آغاز ہونے کا امکان ہے۔

خاتون کے دانتوں سے ملنے والے پتھر کو ’لازی لائی‘ کہا جا رہا ہے، جو دراصل قیمتی جواہروں اور نایاب پتھر کی ایک قسم ہے۔

لازی لائی کو سنگ لاجورد بھی کہا جاتا ہے اور یہ کسی زمانے میں سونے جتنا مہنگا ہوا کرتا تھا، تاہم اب یہ نایاب بن چکا ہے۔

تحقیقی جرنل ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق تحقیق کاروں کو یہ نیلا نایاب پتھر جرمنی کے ایک خانقاہ میں موجود ایک خاتون کے ڈھانچے کے معائنے کے وقت ملا۔

قرون وسطیٰ کے دور کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے—فوٹو: وزٹ کلسٹر
قرون وسطیٰ کے دور کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے—فوٹو: وزٹ کلسٹر

جس خاتون کے دانتوں سے یہ نیلا نایاب پتھر ملا، اس متعلق خیال کیا رہا ہے کہ ان کی عمر 45 سال سے 60 کے درمیان ہوگی اور ان کی موت ممکنہ طور پر 997 سے 1162 کے درمیان ہوئی ہوگی۔

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ جس خاتون کے دانتوں سے یہ نیلا پتھر ملا ہے، ان کے دانتوں یا اس نیلے پتھر پر ایسے کوئی نشانات موجود نہیں، جس سے اندازہ ہوکہ خاتون کو دانتوں کی کوئی بیماری ہو۔

یہ نیلا نایاب پتھر جس خاتون کے ڈھانچے سے دریافت ہوا ہے، وہ قرون وسطیٰ کے زمانے میں جرمنی کے دیہات میں ایک چرچ میں مذہبی خدمات سر انجام دیتی تھیں۔

جس خاتون کے دانتوں سے پتھر ملا وہ جرمنی کے دیہات میں رہتی تھیں—فوٹو: سی این این
جس خاتون کے دانتوں سے پتھر ملا وہ جرمنی کے دیہات میں رہتی تھیں—فوٹو: سی این این

خاتون کے دانتوں سے نایاب سنگ لاجورد کے ملنے کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ جرمنی کے دیہاتوں میں رہنے والی خواتین سے متعلق بھی مزید کئی انکشافات سامنے آئیں گے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنی کے دیہاتی علاقوں میں 10 ویں صدی میں خواتین کثیر تعداد میں رہتی تھیں، تاہم اس حوالے سے کوئی مستند تحقیقات کے نتائج سامنے نہیں آ سکے۔

ماہرین کے مطابق خاتون کے دانتوں سے ملنے والا سنگ لاجورد نامی نایاب نیلا پتھر قرون وسطیٰ کے زمانے میں صرف جنوبی ایشیا کے خطے میں پایا جاتا تھا، جب کہ زیادہ تر اس پتھر کی کانیں حالیہ افغانستان کے علاقے میں موجود ہوتی تھیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں بھی سنگ لاجورد کو کانوں سے نکال کر اسے تراشنے کے بعد یورپ سمیت دنیا کے دیگر خطوں میں فروخت کے لیے بھیجا جاتا تھا اور یہ اس زمانے میں بھی قیمتی تھا۔

ماہرین کو امید ہے کہ صدیوں پرانے خاتون کے ڈھانچے کے دانتوں سے ملنے والے اس نایاب پتھر کے بعد تحقیقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا اور وہ یہ جاننے میں کامیاب جائیں گے اس وقت کی خواتین کی زندگی کس طرح گزرتی تھی۔

یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ جس خاتون کے دانتوں سے یہ نیلا نایاب پتھر ملا ہے وہ اپنے زمانے میں اپنے علاقے کی مشہور آرٹسٹ رہی ہوگی۔

تاہم اس خاتون کا ڈھانچہ ایک مذہبی خانقاہ میں رکھا ہوا ہے، جس پر کئی سال سے ماہرین تحقیق کر رہے تھے۔

نایاب ہوجانے والے سنگ لاجورد سے خواتین کے زیورات تیار کیے جاتے ہیں—فوٹو: سیگ گاڈیسز
نایاب ہوجانے والے سنگ لاجورد سے خواتین کے زیورات تیار کیے جاتے ہیں—فوٹو: سیگ گاڈیسز

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں