اسلام آباد: سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے صحت نے وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں غیر رجسٹرڈ ڈاکٹرز کا ڈیٹا طلب کرتے ہوئے ان کی فوری رجسٹریشن کا حکم دے دیا۔

سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار کے زیرِ صدارت سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے صحت کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انکشاف ہوا کہ وفاقی دارالحکومت کے 60 ڈاکٹرز اپنی پی ڈی ایم سی کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سینیٹر کلثوم پروین نے پی ای ڈی سی حکام سے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ ڈیپوٹیشن پر کتنے ڈاکٹرز بھرتی کیے گئے ہیں اور کتنے ڈاکٹرز مستند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا تو نہیں ہے کہ دانتوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز عارضہ قلب میں مبتلا مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں: 'گلی محلوں کے ڈاکٹرز کے پاس ہر ’خبر‘ ہوتی ہے'

کمیٹی سربراہ ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ پی ایم ڈی سی ڈاکٹرز کی نگرانی نہیں کر پاتا کیونکہ اسلام آباد میں 60 ڈاکٹرز کی رجسٹریشن منسوخ کی جاچکی ہے لیکن اس ادارے کو کچھ علم ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر اشوک کمار کا کہنا تھا کہ ایک ڈاکٹر کی 1997 میں رجسٹریشن منسوخ ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک شخص جس کا نام ڈاکٹر عامر مقبول ہے اس کی رجسٹریشن بھی 1995 میں منسوخ ہوچکی ہے، میرے مطابق تو یہ ڈاکٹر بھی نہیں ہوسکتا۔

اجلاس کے دوران پی ایم ڈی سی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس ڈاکٹرز سے متعلق پورا ڈیٹا موجود ہے۔

کمیٹی نے سوال کیا کہ ڈاکٹرز کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کے باوجود انہیں کام سے کیوں نہیں روکا گیا جس پر پی ایم ڈی سی حکام نے کہا کہ گزشتہ برس رجسٹریشن کروانے سے متعلق اشتہار دیا گیا تھا۔

یہ بھی دیکھیں: 'ڈاکٹرز نے مجھے موت کے منہ سے نکالا'

انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت پمز ہسپتال کے 38 اور پولی کلینک کے ڈاکٹرز کی تعداد 45 ہے جن کی رجسٹریشن منسوخ ہوچکی ہے جبکہ پی ایم ڈی سی کے اقدامات سے قبل یہ تعداد زیادہ ہے۔

ڈاکٹر اشوک کمار نے حکام کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک سو سے زائد ڈاکٹرز ایسے ہیں جو اپنی رجسٹریشن کی منسوخی کے باوجود کام کر رہے ہیں۔

اجلاس کے دوران کمیٹی نے غیر رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی فوری رجسٹریشن کرنے کی ہدایت کی جبکہ سفارش پیش کی کہ رجسٹریشن نہ کروانے والے ڈاکٹرز کے خلاف جرمانہ عائد کیا جائے۔

علاوہ ازیں کمیٹی نے پی ایم ڈی سی کو ہدایت کی کہ وہ چاروں صوبوں سے رابطے کرکے وہاں موجود غیر رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تفصیلات حاصل کریں جبکہ ان کی رجسٹریشن کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں