پاکستان اور بھارت کا ایک دوسرے کے سفارتی عملے کو ہراساں کرنے کا الزام

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2019
پاکستانی سفارت خانے کے افسر کو خاتون کی شکایت پر حراست میں للیا گیا تھا — فائل فوٹو
پاکستانی سفارت خانے کے افسر کو خاتون کی شکایت پر حراست میں للیا گیا تھا — فائل فوٹو

اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ایک سال قبل سفارتی عملے کے حوالے سے دو طرفہ 'ضابطہ اخلاق' پر اتفاق کیے جانے کے باوجود حال ہی میں دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے سفارتی عملے کو ہراساں کیے جانے کا الزام لگایا ہے۔

بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ 10 جنوری کو پاکستان کے سیکیورٹی اہلکار کی جانب سے مبینہ طور پر ہائی کمشنر اجے بساریا اور ڈپٹی کمشنر جے پی سنگھ کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیے جانے پر دفتر خارجہ سے احتجاج کیا گیا تھا۔

بھارتی حکام کے مذکورہ دعوے کے حوالے سے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل سے پوچھا گیا تاہم انہوں نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔

واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل بھارت میں ایک خاتون کی جانب سے شکایت کے بعد پاکستانی ہائی کمیشن کے عہدیدار کی طویل تحویل کے باعث دفتر خارجہ کی جانب سے بھارتی ہائی کمشنر سے احتجاج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی ہائی کمشنر، بھارتی وزیرخارجہ کی ملاقات: رپورٹس

دفتر خارجہ نے اپنے احتجاج میں کہا تھا کہ سفارتی عملے کی حراست ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات نیول اتاشی آفس سے تعلق رکھنے والے افسر کو پولیس نے ایک خاتون کی شکایت پر حراست میں لیا، ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ ایک بازار میں انہوں نے خاتون سے تلخ کلامی کی ہے، آفسر کی جانب سے شناخت ظاہر کیے جانے کے باوجود انہیں حراست میں لیا گیا۔

دوسری جانب بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ کو گزشتہ کچھ ماہ سے چند واقعات کی اطلاعات دی جارہی ہیں، جو سیکریٹری کی رہائشی عمارت کی بجلی منقطع کرنے اور ہائی کمیشن کے متعدد سفارتی عملے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ہیک کیے جانے سے متعلق تھیں۔

بھارتی حکام نے اپنے احتجاج میں ان واقعات کو 'جارحانہ نگرانی، نجی معاملات میں مداخلت اور ہراساں کرنا' قرار دیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی عملے کو ہراساں کیے جانے سے متعلق متعدد شکایات کے بعد مارچ 2018 میں اس معاملے کے حوالے سے 1992 کے ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اس وقت ہونے والے مذکورہ معاہدے کے مطابق 'دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں تعینات ان ممالک کے سفارتی عملے کے حوالے سے 1992 کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیا جائے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی دفترخارجہ طلبی،ایل اوسی فائرنگ پراحتجاج

مذکورہ ضابطہ اخلاق کا مقصد دونوں ممالک کے سفارتی مشن اور اس کے عملے کو بغیر کسی مداخلت کے کام کرنے کی سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ ان کے اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے۔

یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک میں پیش آنے والے واقعات ماضی میں ہونے والے تنازعات یا کشیدگی کے رد عمل کے طور پر سامنے آتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان سرکاری سطح ہر مذاکرات تقریبا 5 سال سے منقطع ہیں۔

بھارت میں ہونے والے انتخابات کے باعث دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی کوششیں سے متعلق پیش رفت غیر متوقع ہے۔


یہ رپورٹ 15 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں