وہ آنکھ لائی ہے زنجیر کرکے کیا کیا رنگ

وہ آنکھ لائی ہے زنجیر کرکے کیا کیا رنگ

شبینہ فراز

رنگ باتیں کریں! اس پر تو سبھی متفق ہیں لیکن کیا کینوس پر چھلکتے رنگ باتوں کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی کی خوشبو بھی بکھیر سکتے ہیں؟ یہ تجربہ نیا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں ایک بہت خوبصورت اور رنگ برنگے منصوبے ’فن برائے موسمیاتی تبدیلی‘ (Art for Climate Change) کی جہاں مصوروں، فوٹوگرافروں اور ویڈیوگرافروں نے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے اپنے فن کا اظہار کیا اور دیکھنے والوں تک اپنے مشاہدات پہنچائے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں یا کلائمیٹ چینج کو بہت حد تک سائنسدانوں کا ہی مسئلہ سمجھا جاتا رہا لیکن یہ ماضی بعید کی بات ہے، حال کی نہیں۔ کلائمیٹ چینج نامی بلا نے پچھلی چند دہائیوں سے جس تیزی سے کرہءِ ارض کے ماحول اور اس سے وابستہ ہر شے کو تہس نہس کیا ہے اس کے بعد ایک عام آدمی بھی متاثرین کی صف میں شامل ہوچکا ہے اور اس پر اظہارِ خیال کرتا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب معاشرے کے ہر طبقے کو ہم اس محاذ پر سرگرمِ عمل یا کم از کم بات کرتے ہوئے تو دیکھ ہی سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں آرٹ یا فن کو سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر آرٹ کو کلائمیٹ چینج یا آب و ہوا کی تبدیلی کے ابلاغ کے لیے استعمال کرنے کی روایت کم کم رہی ہے۔ دراصل اب سائنسدان اور پالیسی ساز جان چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ صرف سائنسی سطح پر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے معاشرے کے ہر طبقہ فکر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، خصوصاً آرٹ کے شعبے کو، کیونکہ اس کی رسائی عام لوگوں تک ہے۔ آرٹ کی جڑیں براہِ راست تہذیب و ثقافت میں پیوست ہوتی ہیں اور ثقافت سے جڑے خیالات کو سائنسی نظریات کی نسبت لوگ آسانی سے قبول کرلیتے ہیں۔

آرٹسٹ بہت حساس لوگ ہوتے ہیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جس کے بعد انہوں نے ان مسائل کو اپنی پینٹنگز، تصاویر اور ویڈیو کا موضوع بنایا۔
آرٹسٹ بہت حساس لوگ ہوتے ہیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جس کے بعد انہوں نے ان مسائل کو اپنی پینٹنگز، تصاویر اور ویڈیو کا موضوع بنایا۔

اب پاکستان بھی دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوگیا ہے جہاں آرٹ کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے ابلاغ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

یہ 2016ء کا ذکر ہے جب سید ابو احمد عاکف وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی میں بطور وفاقی سیکریٹری تعینات تھے۔ یہ تصور ان ہی کے ذہن رسا کا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے شعور و آگہی کے پھیلاؤ میں معاشرے کا ہر طبقہ اور خصوصاً مصور بھی بہترین کام کرسکتے ہیں۔ یہ خیال حقیقت میں ڈھلا اور ان کا ساتھ گیلری 6 کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارجمند فیصل نے دیا اوراس منصوبے کو قابلِ عمل بنایا۔

2016ء میں مصوروں کو سوات کی سحر انگیز وادیوں کا دورہ کروایا گیا اور 2018ء میں ناران کاغان کے پُرفضا مقام پر لے جایا گیا۔ یہ سحر انگیز سرسبز وادیاں، برف پوش چوٹیاں، شور مچاتے جھرنے اور ندی نالے، بلندوبالا درخت۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کی ان حسین وادیوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ جنت یقیناً ایسی ہی ہوگی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب ان وادیوں کا حسن گہنا رہا ہے۔ کلائمیٹ چینج کی تیز رفتار تباہ کاریوں کو دیکھنا ہے تو یہ علاقے اس حوالے سے بہت اہم ہیں۔ یہاں چپے چپے پر تبدیلیوں کے نشانات موجود ہیں۔

سجل کیانی کے فن پارے
سجل کیانی کے فن پارے

اس مہم میں مصوروں کے ساتھ ساتھ مجسمہ ساز، فوٹوگرافر اور ویڈیوگرافر بھی تھے۔ ان سب کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے معلومات بھی دی گئیں۔ ان معلومات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فنکاروں نے ان تبدیلیوں کا خود مشاہدہ کیا۔ مقامی افراد سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ لوگوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں کبھی بہت گھنے جنگل پائے جاتے تھے جو اب نہیں رہے۔ گلیشیئرز بہت زیادہ تھے جو پگھل کر بہت کم رہ گئے ہیں۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے جو تیز سیلاب آتے ہیں ان کی تباہی کی شدت کیا ہوتی ہے، کیا کیا خطرات لاحق ہیں۔ فنکاروں کا مشاہدہ بلا کا ہوتا ہے۔ ان خوبصورت وادیوں کو گھن کی طرح کھانے والی تباہی کو انہوں نے دل سے محسوس کیا اور ان احساسات کو اپنے برش اور کیمرے سے اجاگر کردیا اور یوں اس حوالے سے ایک شاندار کام وجود میں آیا جس کو ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔

ان ہی میں سے ایک مصور عرفان گل ڈاہری کی پینٹنگ سال بھر تک گوگل سرچ میں سب سے اوپر رہی اور لاکھوں لوگوں نے اس تصویر کو دیکھا۔ عرفان کی ایک اور پینٹنگ بہت پسند کی گئی جس میں انہوں نے ایک ماچس کی ڈبیا پر خوبصورت سر سبز وادی دکھائی جو ایک طرف سے زیر آتش ہے، گویا اس خوبصورت وادی کو ہم اپنے ہاتھوں سے آگ لگا رہے ہیں۔

عرفان گل ڈاہری کے فن پارے
عرفان گل ڈاہری کے فن پارے

مصور عرفان گل ڈاہری کی پینٹنگ سال بھر تک گوگل سرچ میں سب سے اوپر رہی اور لاکھوں لوگوں نے اس تصویر کو دیکھا۔
مصور عرفان گل ڈاہری کی پینٹنگ سال بھر تک گوگل سرچ میں سب سے اوپر رہی اور لاکھوں لوگوں نے اس تصویر کو دیکھا۔

گیلری 6 کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارجمند فیصل جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں لیکن آرٹ کا شوق انہیں اس راہ پر بھی گامزن رکھتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے Art for Climate Change کے تحت جو بھی کام کیا گیا اسے بہت سراہا گیا۔ ان تصاویر اور مجسموں کو گیلری میں تو ہزاروں لوگوں نے دیکھا جبکہ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی لاکھوں لوگ ہمارا کام دیکھ رہے ہیں۔

آرٹسٹ بہت حساس لوگ ہوتے ہیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جس کے بعد انہوں نے ان مسائل کو اپنی پینٹنگز، تصاویر اور ویڈیو کا موضوع بنایا۔ ان منصوبے میں بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا گیا جن میں درختوں کی کٹائی جس کے باعث پرندوں کی ہجرت، ان سرسبز وادیوں میں کوئلوں کا بطور ایندھن جلنا اور ماحولیاتی آلودگی اور پانی جیسے قیمتی وسیلے کا ضیاع شامل ہیں۔

عابد خان کی پینٹنگ
عابد خان کی پینٹنگ
عابد خان کی پینٹنگ
عابد خان کی پینٹنگ

ارجمند صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ ایک ہوٹل میں نلکے سے پانی کی موٹی دھار بہے چلی جارہی تھی جس کا کسی کو احساس تک نہ تھا اور اس کے قریب ہی پانی کی بوتلیں خرید کر رکھی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ہم اپنا قیمتی میٹھا پانی ضائع کررہے ہیں اور دوسری طرف آلودہ پانی خرید کر پی رہے ہیں۔

ایک مصورہ اور مجسمہ ساز سجل کیانی نے اس منظر کو اپنے پوسٹر میں اتارا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے سب سے زیادہ جس چیز نے پریشان کیا وہ قدرتی وسائل کا ضیاع تھا۔ مقامی لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ وہ اپنے خزانوں کو کس طرح بے دردی سے لٹا رہے ہیں۔

پانی چونکہ مفت میں مل جاتا ہے اس لیے اس کی قدر ہی نہیں کی جاتی ہے۔ سجل کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے علامتی انداز میں مجسمے بنائے۔ ان مجسموں کا دھڑ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے بھکاریوں جیسا تھا اور سر کی جگہ نلکے بنائے۔ جس طرح بھکاری لاچار اور بے بس ہوتے ہیں اسی طرح ہم پانی کو ضائع کرنے کے معاملے میں بے بس اور لاچار بن جاتے ہیں۔ سجل خوش ہیں کہ ان کے کام کو زبردست پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور وہ پُرعزم ہیں کہ آئندہ بھی وہ ان موضوعات پر کام کریں گی۔

مصوری کے ان فن پاروں کی نمائش کا اہتمام سال کے آخری مہینے دسمبر میں اسلام آباد کی گیلری 6 میں کیا گیا۔
مصوری کے ان فن پاروں کی نمائش کا اہتمام سال کے آخری مہینے دسمبر میں اسلام آباد کی گیلری 6 میں کیا گیا۔

ڈاکٹر ارجمند فیصل جو خود بھی بہت اچھے مصور ہیں انہوں نے ان علاقوں کے ندی نالوں کے شفاف پانی میں پائی جانے والی ٹراؤٹ مچھلی کو اپنی تصویر کا موضوع بنایا۔ سوات کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ سوات کا ذکر ٹراؤٹ مچھلی کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی انتہائی بلندی پر شفاف پانیوں میں پائی جاتی ہیں اور ذائقے میں انتہائی لذیذ ہوتی ہے۔

یہ مچھلی سیاہ، سرمئی اور براؤن رنگ میں پائی جاتی ہے، ڈاکٹر ارجمند فیصل نے اسے پینٹ کرتے ہوئے براؤن کی جگہ سنہری رنگ استعمال کیا تاکہ لوگ اس کی قدرو قیمت جان سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ سیاحت کا رجحان بڑھ رہا ہے اس لیے وہاں آنے والا ہر سیاح ٹراؤٹ مچھلی کھانا چاہتا ہے۔ طلب بڑھنے کے باعث لوگ زیادہ سے زیادہ مچھلی کے حصول کے لیے الیکٹرک شاک سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، جس سے چھوٹی مچھلیاں بھی مرجاتی ہیں یوں اس کمیاب مچھلی کی نسل کشی ہورہی ہے۔

آمنہ یاسین کے فن پارے

سینئر صحافی عافیہ سلام بھی اس منصوبے کا حصہ تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے آرٹ کا استعمال پاکستان میں نیا تھا لیکن اس کے بہت مثبت اثرات رونما ہوئے۔ لوگ فنکاروں کے کام کی تعریف کررہے ہیں اور فنکاروں کو بھی کام کے لیے نئے موضوعات مل گئے ہیں۔ فنکاروں نے نہ صرف ان علاقوں کا مشاہدہ کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر عملی طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔

عافیہ کا کہنا ہے کہ ہم نے جھیل لولو سر اور جھیل سیف الملوک کی صفائی بھی کی۔ فنکاروں نے ان جھیلوں کے گرد موجود گندگی کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔ انہوں نے ایسے ماحول دوست تھیلوں (Biodegradable bags) میں کوڑا کرکٹ جمع کیا جو 90 دن کے اندر تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ ارد گرد موجود سیاح بھی ہمارے کام سے متاثر ہوکر ہمارے ساتھ شامل ہوگئے اور انہوں نے بھی کچرا صاف کیا۔

ڈاکٹر ارجمند اپنے اور دیگر مصوروں کے کام کی پذیرائی سے بہت خوش ہیں، انہوں نے بتایا کہ مناکو میں ایک ماحول سے متعلق کانفرنس ہورہی تھی جس میں شرکا کو ہمارا کام دکھایا اور سراہا گیا۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں کلائمیٹ چینج کے لیے آرٹ کا استعمال کیا گیا۔

ایس ایم خیام کا فن پارہ
ایس ایم خیام کا فن پارہ

کرن سلیم کا فن پارہ
کرن سلیم کا فن پارہ

ڈاکٹر ارجمند نے بتایا کہ بین الاقوامی ادارے ’ایسٹ ویسٹ سینٹر‘ کے ای نیوز پیپر جو 45 ممالک کے لاکھوں قارئین تک پہنچتا ہے اس میں ہمارے کام کے حوالے سے لکھا گیا۔ فنکاروں کے اس کام سے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر ہوا۔ ایک تصویر کو انٹرنیٹ پر دیکھ کر ناروے سے ایک خریدار نے خریدا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں تک ہمارا کام پہنچا۔ ہر فنکار کے ہزاروں فالوورز ہیں جو ان فن پاروں کو دیکھ رہے ہیں۔ میرے اپنے فالوورز کی تعداد 10 ہزار ہے۔ اسی حوالے سے ہماری صرف ایک پوسٹ تک 52 ہزار لوگوں کی رسائی ہوئی تھی۔ پہلی نمائش میں جو لوگ آئے تھے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہمارے کام سے متاثر ہوکر پودے لگائے۔

مصوری کے ان فن پاروں کی نمائش کا اہتمام سال کے آخری مہینے دسمبر میں اسلام آباد کی گیلری 6 میں کیا گیا۔ اس نمائش کا افتتاح صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے کیا تھا۔ نمائش سے لے کر اب تک ہزاروں افراد ان فن پاروں کو دیکھ چکے ہیں جن میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی کو بطور تحفہ عرفان گل ڈاہری کی پینٹنگ پیش کی گئی جو سال بھر گوگل سرچ میں سب سے اوپر رہی۔


شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔