نواز شریف نے پاکپتن دربار اراضی غیر قانونی طور پر منتقل کی، جے آئی ٹی

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2019
نواز شریف نے ایک ہی دور میں ہجرہ شاہ مقیم اور دربار حافظ جمال کی اراضی بھی غیر قانونی طور پر دی، رپورٹ — فائل فوٹو
نواز شریف نے ایک ہی دور میں ہجرہ شاہ مقیم اور دربار حافظ جمال کی اراضی بھی غیر قانونی طور پر دی، رپورٹ — فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں پاکپتن دربار اراضی کیس میں بنی جے آئی ٹی نے عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کرادی جس میں بتایا گیا کہ اراضی کو نواز شریف نے غیر قانونی طور پر منتقل کی۔

سپریم کورٹ میں پاک پتن دربار اراضی منتقلی کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ حسین اصغر نے تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں دربار کی زمین کی غیر قانونی منتقلی کا ذمہ دار اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کو ٹھہراتے ہوئے بتایا گیا کہ انہوں نے ایک ہی دور میں ہجرہ شاہ مقیم اور دربار حافظ جمال کی اراضی بھی غیر قانونی طور پر دی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سجادہ نشین قطب الدین نے زمین کی الاٹمنٹ کے لیے وزیر اعلیٰ کو درخواست دی تھی جس میں وقف زمین کا 1969 کا نوٹیفیکشن واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف پاکپتن دربار اراضی کیس، جے آئی ٹی کے سربراہ تبدیل

اس کے بعد سجادہ نشین نے وزیراعلیٰ سے اوقاف کی زمین کا نوٹیفیکشن واپس لینے کا حکم حاصل کیا اور محکمہ اوقاف کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو سیکرٹری اوقاف نے حذف کردیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری اوقاف نے وزیراعلیٰ کے احکامات کی تعمیل کرنے کی ہدایات جاری کی اور سجادہ نشین نے زمین کی الاٹمنٹ حاصل کرنے کے بعد اسے فروخت کردیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق دیوان قطب الدین کے انتقال کے بعد ورثار نے 12 ہزار 91 کنال زمین کو غیر قانونی طور پر فروخت کیا۔

جے آئی ٹی نے عدالت میں اوقاف کی زمین کو واپس لینے کی سفارش کی اور کہا کہ محکمہ مال کے پٹواری، تحصیل دار اور متعلقہ افسران اس غیرقانونی اقدام کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعلیٰ کے بعد زمین کی الاٹمنٹ کا کوئی اختیار نہیں تھا، وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اس غیر قانونی اقدام کے وزیراعلیٰ مکمل طور پر ذمہ دار ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکپتن دربار اراضی کیس: میرا جے آئی ٹی کے حوالے سے تجربہ اچھا نہیں، نواز شریف

جے آئی ٹی نے عدالت سے نوازشریف، سیکرٹری نوازشریف جاوید اقبال بخاری، سجادہ نشین کے ورثار کے خلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کردی۔

انہوں نے محکمہ اوقاف کے متعلقہ ذمہ داران اور محکمہ مال کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی۔

عدالت میں نوازشریف کے وکیل منوردوگل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے جواب دیا تھا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہ ہو کہ عدالت اینٹی کرپشن کو پرچہ درج کرنے کےلیے کہہ دے۔

چیف جسٹس نے ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درباروں کی زمین 1986 میں الاٹ کی گئی اور سوال کیا کہ غیر قانونی طور پر الاٹمنٹ کیوں کی گئی؟؟

ان کا کہنا تھا کہ چوروں نے زمین لے کر آگے بیچ دی۔

انہوں نے استفسار کیا کہ تفتیش اور انکوائری ہوئی تو کوئی بچ نہیں پائے گا۔

عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ پر پنجاب حکومت اور نوازشریف سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: پاکپتن اراضی کیس: نواز شریف کے خلاف ایک اور جے آئی ٹی تشکیل

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکپتن میں دربار کے گرد اوقاف کی زمین کی اراضی کی الاٹمنٹ اور دکانوں کی تعمیر سے متعلق ازخود نوٹس میں 4 دسمبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

4 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے کیس میں جے آئی ٹی بنانے کا عدیہ دیا تھا تاہم عدالت میں نواز شریف نے کہا تھا کہ ان کا جے آئی ٹی کے حوالے سے تجربہ اچھا نہیں، اس لیے مذکورہ معاملے کی تحقیقات کے لیے کچھ اور بنایا جائے۔

بعد ازاں 13 دسمبر کو سپریم کورٹ نے ڈی جی نیکٹا خالق داد لک کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی تھی اور ٹیم میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نمائندوں کو بھی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

27 دسمبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے خالق داد لق کی جے آئی ٹی کی سربراہی سے معذرت پر ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب ڈاکٹر حسین اصغر کو جے آئی ٹی کا نیا سربراہ مقرر کردیا تھا۔

عدالت کی جانب سے نئی جے آئی ٹی کو 10 روز میں ٹرم آف ریفرنس (ٹی او آرز) دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں