’لڑکیوں کی ناکافی غذا اور کم عمری میں شادی نامکمل نشوونما کی وجوہات‘

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2019
غیر کامل نمو والی مائیں صحت مند بچے کو بھی جنم نہیں دے پاتیں — فائل فوٹو
غیر کامل نمو والی مائیں صحت مند بچے کو بھی جنم نہیں دے پاتیں — فائل فوٹو

عالمی اتحاد برائے بہتر غذا کے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو کم غذا دینا بچوں میں نامکمل نشوونما کی اہم وجہ ہیں۔

ڈاکٹر قیصر منیر پاشا نے یہ بات وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے زیر اہتمام ’پاکستان میں نوعمری میں غذا‘ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکوں کو عام طور پر لڑکیوں سے زیادہ غذا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں کئی شعبوں میں لڑکوں کا مقابلہ نہیں کرپاتیں جبکہ نامکمل نشوونما کی حامل مائیں صحت مند بچے کو بھی جنم نہیں دے پاتیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں شدید غذائی قلت کے کیسز سامنے آنے کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں 41 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے اور سب سے بری صورتحال بلوچستان میں ہے، ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوگی کہ خواتین اور بچوں کو پوری طرح سے غذا ملے کیونکہ اس سے زچگی کے وقت ماؤں اور بچوں کی ہلاکت کی شرح کم کی جاسکتی ہے‘۔

صحت کے امور کے ماہر ڈاکٹر بشیر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پیدائش کے بعد بچوں کے پہلے ایک ہزار دن غذا کی ضرورت کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک وقت ہے جس میں غذائی قلت بالخصوص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھر: غذائی قلت سے مزید 7 نومولود جاں بحق، تعداد 635 ہوگئی

وزارت این ایچ ایس کے نمائندے ڈاکٹر خواجہ مسعود کا کہنا تھا کہ نو عمری میں غذا کے حوالے سے پلیٹ فارم کا قیام ہماری کامیابی کا ثبوت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا قیام نو عمری میں غذائی قلت کے حوالے سے اہم شراکت داروں کو صرف یکجا کرنا نہیں بلکہ ملک میں اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا بھی ہے‘۔

تقریب کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان پر غذائی قلت کا بڑا بوجھ ہے جس سے ہر سال تقریباً 7.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 3 فیصد خرچ ہوتا ہے‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 16 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں