اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو آپ نے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر ایک نئے ٹرینڈ کو ضرور محسوس کیا ہوگا جس میں لوگ اپنی حالیہ اور 10 سال پہلے کی 2 تصاویر شیئر کررہے ہیں۔

درحقیقت دنیا بھر میں لاکھوں افراد بشمول معروف فنکار و شخصیات اس 10 ائیر چیلنج کا حصہ بن چکی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بحث چل رہی ہے کہ کہیں یہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی جانب سے لوگوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کا نیا طریقہ تو نہیں۔

ٹیکنالوجی ماہرین نے اس حوالے سے کافی خدشات ظاہر کیے ہیں۔

View this post on Instagram

#10yearchallenge ❤️ #photooftheday #instapic #blackandwhite

A post shared by Shamita Shetty (@shamitashetty_official) on

نیوزی لینڈ ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے ایک ٹیکنالوجی ماہر پال بریسلین نے کہا کہ یہ 'تفریحی گیم' صارفین کو شناخت چرانے کے خواہشمند افراد کا آسان شکار بناسکتی ہے۔

مزید پڑھیں : سوشل میڈیا کے انوکھے 'چیلنجز'

انہوں نے کہا ' 10 میں سے 9 بار ایسے ٹرینڈز فراڈ ہوتے ہیں، اس کو آگے بڑھانے اور اس طرح کی گیمز یا معموں کا مقصد کمپنی کو آپ کی معلومات اور ڈیٹا تک رسائی دینا ہوتا ہے تاکہ وہ آپ کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکے اور کیسے اشتہارات دکھانے چاہئے، وہ سمجھ سکے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی انڈسٹری میں کوئی بھی اس طرح کے ٹرینڈ شروع کرسکتا ہے اور نئے سافٹ وئیر ٹیسٹ کرسکتا ہے۔

ان کے بقول سوشل میڈیا سائٹس لوگوں کی جانب سے پوسٹ تصاویر کو اپنے سافٹ وئیر الگورتھم کی تربیت کے لیے استعمال کرسکتی ہیں یا روبوٹک دماغ کو استعمال کرکے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس حد تک صارفین کو شناخت کرپاتا پے۔

دوسری جانب wired.com میں شائع ایک مضمون میں بتایا گیا کہ چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا خیال تو ایسا ہے جس کے بارے میں سوچ کر ہی لوگوں کو اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوچنا ضرور چاہئے کہ کس حد تک ذاتی ڈیٹا آپ بغیر تحفظات کے شیئر کرسکتے ہیں۔

View this post on Instagram

So here it is, my #10YearChallenge! At 27 and 37!

A post shared by Dia Mirza (@diamirzaofficial) on

مضمون میں بتایا گیا کہ بیشتر افراد کا موقف ہے کہ یہ وہ تصاویر ہیں جو پہلے ہی ان کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس جیسے فیس بک پر دستیاب ہیں، یعنی کمپنی کو ان تک رسائی ہے، بس اب انہیں سال لکھ کر یعنی 2009 اور 2019 لکھ کر شیئر کیا جارہا ہے، تو اس میں کیا برائی ہے؟

تو اس کا جواب ہے کہ آپ تصور کریں کہ آپ چہرے شناخت کرنے والے الگورتھم کو عمر بڑھنے سے آنے والی تبدیلیوں کی تربیت دینا چاہتے ہیں یا سیکھانا چاہتے ہیں کہ عمر بڑھنے سے لوگ کیسے نظر آئیں گے؟ تو اس کے لیے مثالی حل تو یہ ہے کہ متعدد افراد کی تصاویر حاصل کی جائیں جس سے سسٹم کو یہ جاننے اور پیشگوئی کرنے میں مدد ملے گی کہ 10 سال کے عرصے میں لوگ کیسے نظر آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں : سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والا دلچسپ ان ویزیبل چیلنج

مضمون میں مزید لکھا کہ فیس بک پروفائل تصاویر لوگ پوسٹ کرتے رہتے ہیں مگر لوگ کبھی انہیں ترتیب سے پوسٹ نہیں کرتے یعنی ہوسکتا ہے کہ جو تصویر ابھی لگی ہو وہ ماضی کی ہو، وہ گزشتہ سال، گزشتہ ہفتے یا ایک گھنٹے پرانی بھی ہوسکتی ہے، بلکہ یہ بھی غیرمعمولی نہیں کہ لوگ اپنی تصاویر کی جگہ کسی اور جیسے بچوں کی تصاویر پروفائل پکچر کے طور پر استعمال کریں۔

مگر اس ٹرینڈ سے الگورتھم کو واضح طور پر جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ تصویر ابھی اور ماضی کی ہے۔

آسان الفاظ میں اس ٹرینڈ سے لوگوں کی تصاویر کا بہت بڑا ڈیٹا جمع ہورہا ہے کہ وہ دس سال پہلے کیسے تھے اور اب کیسے ہیں۔

مضمون کے مطابق اگر یہ ڈیٹا کے حصول کا ذریعہ نہیں بھی ہے تو بھی لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی میں سوشل میڈیا گیمز اور تفریحی ٹرینڈز کو کس طرح ڈیٹا کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا جس کی ایک مثال کیمبرج اینالیٹکا اسکینڈل ہے۔

چہرے اور عمر کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا فائدہ تو کمپنیوں کے لیے ٹارگٹڈ اشتہارات ہیں جو صارف کی عمر کے مطابق اشتہار دکھا سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں