خطاطی کے 1200 برس قدیم شاہکار کی منتقلی پر چین برہم

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2019
یہ شاہکار 1940 میں تائیوان لے جایا گیا تھا — فوٹو: نیشنل پیلس میوزیم
یہ شاہکار 1940 میں تائیوان لے جایا گیا تھا — فوٹو: نیشنل پیلس میوزیم

تائیوان کے نیشنل پیلس میوزیم کی جانب سے خطاطی کے 1200 برس قدیم شاہکار کو جاپان میں واقع ٹوکیو نیشنل میوزیم کو ادھار دینے کے فیصلے پر چین میں غم و غصہ کے اظہار کیا جارہا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کاغذ پر یہ ایک براہ راست ثقافتی تبادلہ دکھائی دیتی ہیں لیکن 1200 برس قبل بنائے گئے اس شاہکار کی وجہ سے چین کی برہمی کی وجہ یہ ہے کہ ’ ریکوئیم ٹو مائی نیفیو ‘ (Requiem to My Nephew ) یعنی میرے بھتیجے کے لیے دعائے مغفرت نامی اس خطاطی کو چین کے عظیم خطاط یان جین کنگ نے لکھا تھا۔

انہوں نے یہ شاہکار 759 عیسوی میں اس وقت لکھا تھا جب انہیں اپنے بھتیجے کے انتقال کا علم ہوا۔

چائینز یونیورسٹی آف ہانک کانگ کے فائن آرٹس پروفیسر ٹونگ کام ٹانگ نے بتایا کہ ’ یان جین کنگ چین میں ایک نام رکھتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ اگر چینی آرٹ پڑھیں تو آپ یان جین کنگ کے متعلق پڑھیں گے‘۔

مزید پڑھیں: 6 ہزار سال قدیم حنوط شدہ بلیاں اور بھنورے دریافت

ٹونگ کام ٹانگ کا کہنا تھا کہ یہ شاہکار یان جین کنگ کا ابتدائی خاکہ تھا جس میں ان کی لکھی گئی شکستہ تحریر بھی موجود ہے جو اسے مزید قیمتی بناتی ہے لیکن اس کا حتمی نمونہ کھوچکا ہے۔

فن کے اس شاہکار کو چین میں صدیوں تک محفوظ کیا گیا جس کے بعد اسے 1940 میں دیگر چینی نواردات کے ہمراہ تائیوان لےجایا گیا تھا۔

اس کے بعد سے اب تک یہ خطاطی کا یہ نمونہ تائیوان نیشنل پیلس میوزیم میں موجود ہے اور اسے دوسری مرتبہ بیرون ملک لے جایا جارہا ہے۔

خطاطی کے اس شاہکار کو 1997 میں واشنگٹن میں قائم نیشنل گیلری آف آرٹ کو دیا گیا تھا لیکن یہ ہمیشہ تائیوان میں ہی رہی ہے۔

یہ شاہکار اب ٹوکیو میں نمائش کے ’ ان رائیوالڈ کیلی گرافی : یان جین کنگ اینڈ ہز لیگیسی ‘ کے حصے میں پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جمال گڑھی کے آثار قدیمہ توجہ چاہتے ہیں

تائیوان کے میوزیم کا کہنا ہے کہ یان جین کنگ نے اپنی خطاطی میں وقت کے بدلتے اثرات کی بہترین عکاسی اور یہ شاہکار ’غم سے بھی جڑا‘ ہے۔

جاپانی میوزیم کو یہ شاہکار ادھار دیئے جانے کی خبر نے چین کی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر اکثر صارف کو حیران کردیا جن میں سے اکثر نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔

گزشتہ برس ویبو پر ’ریکوئم ٹو مائی نیفیو ‘ کو 26 کروڑ مرتبہ پڑھا گیا، اکثر افراد نے چین اور جاپان کی جنگی تاریخ کو بھی درج کیا۔

ایک صارف نے ویبو پرلکھا کہ ’کیا تائیوان بھول گیا کہ جاپان نے ہمارے ساتھ کیا کیا ؟ کیا وہ جانتے ہیں نانجنگ قتل عام کیا ہے؟

خیال رہے کہ 1937 میں جاپانی فوج نے چین کے مشرقی صوبے نانجنگ پر حملہ کیا تھا، اس حوالے سے چین کا کہنا ہے کہ جاپان نے 3 لاکھ افراد کا قتل عام کیا جبکہ بعض جاپانی افراد کسی ہلاکت کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: چینی صدر نے بیجنگ اور تائیوان کا الحاق ناگزیر قرار دے دیا

چین کے سرکاری میڈیا ادارے دی گلوبل ٹائمز نے براہ راست کسی سیاسی تشویش سے متعلق بات نہیں کی بلکہ ایک ماہر سے بات کی جنہوں نے کہا کہ ’ آمدورفت شاہکار کے لیے خطرہ ہے کیونکہ سورج کی روشنی سے قدیم کاغذ کو نقصان پہنچے گا۔

دوسری جانب نیشنل پیلس میوزیم کے بیان میں کہا گیا کہ ’ یہ کاغذ بیرون ملک نمائش کے لیے مناسب ہے‘۔

گلوبل ٹائمز کے مطابق چینی قوانین کے مطابق قیمتی ثقافتی آثار خصوصاً پینٹنگز اور خطاطی کو ملک سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں۔

تاہم یہ واضح ہے کہ اس معاملے پر اس قدر برہمی سیاسی ہے، اس حوالے سے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے پروفیسر ایین چونگ کا کہنا تھا کہ ’ 1930 سے 1940 کے درمیان چین کے اکثر حصوں پر جاپان کے ظالمانہ حملوں کی بری یادیں آج بھی چین میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ اس کا کچھ حصہ اس وجہ سے بھی ہے کہ چین کی جانب سے بار بار اس حملے پر زور دیا جاتا رہا ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں