کابل کی فضائی آلودگی جنگ سے بڑی قاتل

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2019
کابل آلودگی کے حوالے دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہوتا ہے—فائل/فوٹو:اے پی
کابل آلودگی کے حوالے دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہوتا ہے—فائل/فوٹو:اے پی

افغانستان کا دارالحکومت کابل گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جان کھو بیٹھے ہیں جبکہ شہر میں آلودگی سے اموات کی شرح بھی تشویش ناک صورت اختیار کر چکی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ کابل میں آلودگی کے باعث سالانہ 3 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

کابل کے واحد چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر محمد اکبر اقبال کا کہنا تھا کہ ‘آلودہ فضا کا برا اثر خاص کر بچوں پر پڑ رہا ہے جن کا مدافعتی نظام مضبوط نہیں ہوتا اسی لیے وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ایک مرتبہ سینے پر اثر پڑا تو صورت تشویش ناک ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ سے بچے کی جان بھی فوری طور پر جاسکتی ہے’۔

رپورٹ کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں فضائی آلودگی جنگ سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی، افغان فورسز 2018 میں شہریوں پر حملوں کے ذمہ دار ہیں، طالبان

قطری نشریاتی ادارے نے امریکا کے ایک ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں 2016 تک فضائی آلودگی سے 51 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی۔

کابل کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں چلنے والی ہوا مختلف بیماریوں کا باعث بن جاتی ہے اور سب سے بڑا شکار بچے ہوتے ہیں۔

افغانستان میں فضائی آلودگی کے اسباب میں پرانی گاڑیاں، ناقص ایندھن، گلیوں میں کچرے کو جلانا شامل ہے۔

محکمہ ٹیکنیکل امور کے ڈائریکٹر جنرل عزت اللہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘کابل میں خاص کر صبح اور شام کے وقت ٹریفک جام رہتی ہے جبکہ کابل میں 5 لاکھ گاڑیوں کی گنجائش ہے لیکن 8 لاکھ سے زائد گاڑیاں 24 گھنٹے کے دوران سڑک پر موجود ہوتی ہیں’۔

عزت اللہ کا کہنا تھا کہ ‘اس چھٹکارا پانے کے لیے ہم فیکٹریوں کی سرگرمیوں سے بچا سکتے ہیں، ہم سرکاری ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت کو بند کرسکتے ہیں اور دیگر اقدامات کرسکتے ہیں’۔

مزید پڑھیں:'فضائی حملوں سے افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں 39 فیصد اضافہ'

یاد رہے کہ 5 جنوری کو طالبان نے گزشتہ ایک برس کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 2018 میں مجموعی طور پر 4 ہزار 170 شہری متاثر ہوئے جن میں سے 2 ہزار 294 افراد جاں بحق اور 1876 افراد زخمی ہوئے۔

دوسری جانب افغانستان میں موجود نیٹو مشن نے ان اعداد وشمار کو ‘پراپیگنڈا’ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا اور ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان نے 2018 میں بدترین واقعات میں شام کو پیچھے چھوڑ دیا۔

اقوام متحدہ کے معاون مشن کی جانب سے 2018 کے ابتدائی 9 ماہ میں ہونے والے جانی نقصان کے حوالے سے جاری کیے گئے اعداد و شمار اور طالبان کی رپورٹ میں تقریباً 50 فیصد کا فرق تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں