بی این پی مینگل کا حکومتی اتحاد سے راہیں جدا کرنے کا عندیہ

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2019
عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی اور بی این پی مینگل میں معاہدہ طے پایا تھا — فائل فوٹو
عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی اور بی این پی مینگل میں معاہدہ طے پایا تھا — فائل فوٹو

کراچی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے 6 ماہ بعد ہی وہ نمبر گیم کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے کیوں کہ پارلیمنٹ میں اس کی اتحادی جماعتوں میں سے ایک بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی) نے اشتراک کے لیے کیے گئے سمجھوتے پر ان کی غیر سنجیدگی کو جواز بناتے ہوئے اپنی راہیں جدا کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک جانب پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے یقین دہانی کروائی کہ ان کی جانب سے کوئی حکومت مخالف اقدام سامنے نہیں آئے گا تو دوسری جانب وہ ملک میں جاری حالیہ سیاسی سرگرمیوں سے بھی متاثر نظر آئے۔

جس میں اپوزیشن جماعتیں ایک کمیٹی قائم کرنے پر رضامند ہوگئیں ہیں تاکہ حکومت کو ’ٹف ٹائم‘ دینے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی جائے، اس بارے میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات ’ہمیشہ پاکستان میں سیاسی استحکام کا باعث بنے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بی این پی مینگل لاپتہ افراد کے مسئلے پر آرمی چیف سے ملاقات کی خواہاں

پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس سے قبل کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اپنی رہائش گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں، ہم نے آزاد نشستوں پر بیٹھ کر صرف انہیں حمایت فراہم کی ہے اور ہم ان کے ہر مثبت اقدام کی حمایت اور منفی اقدام کی مخالفت کریں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جن نکات پر راضی ہوئے تھے حکومت کی جانب سے ان پر سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی، جس کی وجہ سے ہم اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرسکتے ہیں‘۔

تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے اپنے تجربے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ہر ملاقات کے بعد ایک کمیٹی بنادی جاتی تھی، ’جو کسی کام کی نہیں‘ اور وہ صرف اصل مسائل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک اور ملاقات کی تجویز دے دیتی جبکہ مسائل اب بھی وہیں کے وہیں ہیں، جہاں 6 ماہ قبل تھے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کی ترقی کیلئے اختر مینگل کی بلوچ عوام سے متحد ہونے کی اپیل

انہوں نے بتایا کہ صدارتی انتخابات کے وقت ہم نے 6 نکاتی ایجنڈے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جبکہ اس سے قبل 9 نکات پر سمجھوتہ کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے کسی ایک نکتے پر عمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی انتہائی غیر سنجیدہ ہے اور بار بار تنبیہہ کے باوجود ان کے رویے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔

واضح رہے کہ 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف اور بی این پی مینگل میں ایک سمجھوتہ طے پایا تھا جس میں دونوں فریقین نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے تھے۔

جس کے تحت بی این پی مینگل کے اراکین اسمبلی نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کے لیے حکومت کی حمایت کی تھی۔

تاہم اس شراکت داری میں کچھ ماہ بعد ہی دراڑ سامنے آگی، جب بی این پی کے سربراہ نے پی ٹی آئی قیادت کو خبردار کیا تھا کہ اگر بلوچستان کے حوالے سے لیے گئے فصلوں میں انہیں نظر انداز کیا گیا تو وہ حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں