گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کیے جائیں، سپریم کورٹ کا حکم

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2019
گلگت بلتستان سپریم ایپلٹ کورٹ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دے سکتی—فائل فوٹو
گلگت بلتستان سپریم ایپلٹ کورٹ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دے سکتی—فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان کی عدالتیں آئین پاکستان کی تابع ہیں جبکہ سپریم کورٹ کا دائرہ کار بھی گلگت بلتستان تک نافذالعمل ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر کیس کی سماعت کی اور 7 جنوری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

فیصلے میں عدالت نے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، جس کے تحت کشمیر پر رائے شماری تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پاکستان اور بھارت اپنے زیر انتظام علاقوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں، عدالت نے مثال کے لیے 1999 کے الجہاد کیس کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا حکم دے چکی تھی۔

فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اختیارات گلگت بلتستان میں بھی نافذ العمل ہیں، سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور گلگت بلتستان کا کوئی بھی قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: گلگت بلتستان سے متعلق حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا مسودہ طلب

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ گلگت بلتستان کی عدالتیں اور سپریم ایپلٹ کورٹ کا اختیار صرف گلگت بلتستان تک محدود ہے جبکہ یہ عدالتیں گلگت بلتستان آرڈیننس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کی بھی تابع ہیں۔

چناچہ گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دے سکتی البتہ یہ عدالتیں گلگت بلتستان کونسل کی قانون سازی پر نظر ثانی کرسکتی ہیں، علاوہ ازیں گلگت بلتستان کی عدالتوں کو پاکستان میں آئینی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی آرڈیننس میں ترامیم تجویز کی ہیں اور قرار دیا کہ صدارتی آرڈیننس میں صرف آئین کے آرٹیکل 124 میں درج طریقہ کار کے مطابق ہی ترمیم ہو سکتی ہے لہٰذا اگر پارلیمنٹ اس صدارتی حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرے تو سپریم کورٹ آئین کے تحت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان آئینی حیثیت کا مسودہ قانون کو حتمی شکل دینے کیلئے کمیٹی تشکیل

عدالت نے ہدایت کی کہ وفاق کی سفارش پر صدر پاکستان مجوزہ عدالتی حکم کو نافذ کریں اس کے ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کے شہریوں کو مبارکباد دیتے ہوئے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے عوام کے برابر حقوق دے دیے گئے ہیں۔

اس سے قبل ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ گلگت بلتستان والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اختیارات نہیں دیے جا رہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ قانون سازی اور انتظامیہ کے تمام اختیارات دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے مسودے میں آئین پاکستان پر عمل کی کوشش کی ہے، الگ صوبہ نہیں بنا سکتے لیکن تمام صوبائی اختیارات دیں گے، اس پر جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ بہت قابل تحسین ہے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان اصلاحات کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل

اسی سماعت کے دوران ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے کہا تھا کہ یہ مسودہ ابھی ہمارے سامنے نہیں آیا، ہمیں اجازت دیں کہ اپنی سفارشات بھی دیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ گلگت بلتستان والوں کے تمام مطالبات منظور کرلیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تمام انہیں تمام صوبائی اختیارات ملنے چاہیں، جو اختیارات باقی صوبوں کو حاصل ہیں وہی گلگت بلتستان کو حاصل ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں