کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ برسوں انکوائریاں چلتی ہیں، کئی تفتیشی افسر تبدیل ہوتے ہیں، نتائج کچھ بھی نہیں۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سندھ کے ہر شہر کے حالات خراب ہیں، گلی اور سڑکوں کی بری حالت ہے، گٹر ابل رہے ہیں جبکہ پینے کا صاف پانی بھی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کرنے والوں کا کام چل رہا ہے نیب کا بھی کام چل رہا ہے، نیب والے دفتروں میں بیٹھ پر کام کرتے ہیں، جائے وقوع پر جاتے ہی نہیں۔

مزید پڑھیں: خیرپور: معروف صنعتکار کے گھر پر چھاپہ، نیب پنجاب کو مطلوب مبینہ ملزم گرفتار

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ نیب کے تفتیشی افسران تفتیش کے اہل ہی نہیں، اور ساتھ ہی عدالت میں موجود نیب کے تفتیشی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ابھی کیس میمو بنا دیں، کچھ آتا بھی ہے آپ کو یا نہیں، یہ سارا کام کس سے کراتے ہیں؟

اس موقع پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ تعلم میں کرپشن کے معاملے پر ایک ملزم نے پلی بارگین کی درخواست دی ہے، جس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کروڑوں روپے کی کرپشن والے سے 5 ہزار روپے رضا کارانہ واپس لے لیے، کیا 5 ہزار روپے بھی کوئی رقم ہوتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سب سے زیادہ گڑبڑ نیب سکھر میں ہے، برسوں انکوائریاں چلتی ہیں، کئی تفتیشی افسر تبدیل ہوتے ہیں، نتائج کچھ بھی نہیں۔

بعد ازاں عدالت عالیہ نے نیب سکھر میں زیر التوا انکوائریز کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں اور ساتھ ہی محکمہ تعلیم، میونسپل کارپوریشن اور دیگر محکموں میں کرپشن کے معاملے پر تحقیقات مکمل کرکے 5 مارچ کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مجرمانہ غلفت برتنے پر نیب کے 23 افسران فارغ

اس کے علاوہ عدالت نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے آبائی علاقے میں کرپشن کے معاملے پر نیب کو جلد تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

جس پر نیب نے عدالت کو بتایا کہ آغا سراج درانی کے علاقے گڑھی یاسین کے ترقیاتی منصوبوں کے مختص رقم کرپشن کی نظر ہوگئی، 32 ٹھیکیداروں اور 17 سرکاری افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں