راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے این او سی جاری

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2019
گزشتہ حکومت میں فواد چوہدری نے کہا تھا کہ جنرل (ر) راحیل کو این او سی دینا پارلیمنٹ کے فیصلے کے برعکس ہے—فائل فوٹو
گزشتہ حکومت میں فواد چوہدری نے کہا تھا کہ جنرل (ر) راحیل کو این او سی دینا پارلیمنٹ کے فیصلے کے برعکس ہے—فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی سعودی سربراہی میں قائم 41 مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کے لیے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کردیا۔

مذکورہ این او سی وفاقی کابینہ کے 10 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں حکومت کی جانب سے دی گئی منظوری کے بعد جاری کیا گیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ این او سی وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا۔

اس سلسلے میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا،تاہم اس کی منظوری دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف، جنرل راحیل کو این اوسی دینے کی مخالف

خیال رہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف نومبر 2016 میں پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائر ہونے کے 2 سال بعد تک کسی بھی ملازمت پر عائد پابندی کے باوجود اپریل 2017 میں مسلمان ممالک کے انسداد دہشت گردی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

ابتدا میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انہیں اس ملازمت کے لیے این او سی جاری کیا یا نہیں تاہم بعد میں سابق وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے 2017 میں یہ انکشاف کیا کہ جنرل (ر) راحیل شریف نے این او سی کے لیے درخواست دی تھی جسے باضابطہ کارروائی کے بعد وزارت دفاع نے منظور کرلیا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو 2 سالہ مدت کے دوران ملازمت پر پابندی کے باوجود بیرونِ ملک ملازمت کرنے کے لیے جنرل (ر) راحیل شریف کو نیا این او سی جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔

مزید پڑھیں: راحیل شریف کی اسلامی اتحادی فوج میں تقرری کو کابینہ سے منظور کرانے کا حکم

وفاقی وزیر اطلاعات نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کی جانب سے این او سی سپریم کورٹ میں جمع کروادیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی نے این او سی کے اجرا کی مخالفت کرتے ہوئے بغیر اغراض و مقاصد اور شرائط جانے جنرل (ر) راحیل شریف کو مسلم فوجی اتحاد کی سربراہی کی اجازت دینے کے فیصلے پر سوالات بھی اٹھائے تھے۔

پی ٹی آئی بھی ان جماعتوں میں شامل تھی جو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران اس معاملے پر کھل کر بولتی تھیں جس پر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں بتایا تھا کہ سعودی حکومت جلد ایک اجلاس کرے گی جس میں اس اتحاد کی ٹرم آف ریفرنسز سے آگاہ کیا جائے گا۔

جس پر فواد چوہدری نے اس معاملے پر پی ٹی آئی کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اس فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور جلد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ مقرر

اس وقت پی ٹی آئی کا موقف یہ تھا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے بحران میں غیر جانبدار رہنا چاہیے چناچہ جنرل (ر) راحیل کو این او سی دینا پارلیمنٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔

اس بارے میں فواد چوہدری نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا فیصلہ شیعہ اور سنی مسلک کے درمیان پہلے سے موجود فرقہ وارانہ تفاوت کو ہوا دے گا۔

خیال رہے کہ یہ فوجی اتحاد سیکیورٹی آپریشنز کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے بنایا گیا جس میں تربیت فراہم کرنا، فوجی دستوں کو مسلح کرنا اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے علما کی مدد لینا شامل ہے۔


یہ خبر 19 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں