ہر پانچ منٹ میں ایک شخص روڈ حادثے کا شکار

حکومتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے دوران روڈ حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یا پھر وہ شدید زخمی ہوکر معذور بن جاتا ہے۔

وزارت مواصلات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں روڈ حادثے کے شکار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوجاتے ہیں، جب کہ روڈ سیفٹی کے حوالے سے بہترین ممالک وہ ہیں جہاں حادثے کے شکار افراد 30 دن کے اندر انتقال کرجاتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو روڈ سیفٹی کے حوالے سے بدترین ممالک کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں روڈ حادثات میں سب سے زیادہ اموات مشترکہ طور پر خیبر پختونخوا، اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں ہوتی ہیں، دوسرے نمبر پر پنجاب اور تیسرے نمبر پر صوبہ سندھ ہے۔

روڈ سیفٹی پروجیکٹ رپورٹ کے مطابق صرف سال 2016 میں ہی پاکستان بھر میں 6 ہزار 548 افراد روڈ حادثے کے وقت جائے وقوع پر ہی چل بسے، حیران کن بات یہ ہے کہ ان اموات میں سے 6 ہزار 3 اموات صوبائی حکومتوں کے ماتحت روڈز جبکہ 355 نیشنل ہائی ویز اور 190 اموات موٹر ویز پر ہوئیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں ہر 10 لاکھ افراد میں سے 14 افراد روڈ حادثات کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ (این ٹی آر سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 اور 2016 میں سندھ بھر میں 924 حادثات ہوئے جن میں 749 افراد جاں بحق اور 1144 زخمی ہوئے۔

ٹریفک پولیس اور موٹر ویز کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے زیادہ تر روڈ حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں، جس میں ڈرائیورز کی غفلت سب سے نمایاں ہے۔

ڈرائیورز کی غفلت اور جلد بازی کا شکار بننے والوں میں حیدرآباد کے قرار حسین کا خاندان بھی شامل ہے جو غیر تربیت یافتہ ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے آج تک عذاب کی زندگی گزار رہا ہے۔

قرار حسین معمول کے مطابق اپنے بھائی صدام حسین کے ساتھ دوستوں سے ملاقات کے بعد گھر واپس جا رہا تھا کہ راستے میں پیچھے سے آنے والے ٹرک نے انہیں بری طرح ٹکر ماردی۔

اس حادثے کا شکار ہونے والے صدام حسین نے واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جون 2018 میں وہ بے ہنگم ٹریفک سے بچتے ہوئے احتیاط سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کے آگے چلنے والے ایک ٹرک نے بریک ماری، جس کے بعد انہوں نے بھی فوری طور پر موٹرسائیکل کا بریک لگایا۔

خطرناک حادثے کا شکار ہونے والے صدام حسین اور قرار حسین—فوٹو: صدف شاہ
خطرناک حادثے کا شکار ہونے والے صدام حسین اور قرار حسین—فوٹو: صدف شاہ

صدام حسین نے اعتراف کیا کہ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ کیوں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پیچھے آنے والے ٹرک ڈرائیور نے یا تو بروقت بریک نہیں لگایا یا پھر اتفاق سے ان کا بریک فیل ہوگیا، جس وجہ سے تیز رفتار ٹرک انہیں آکر لگا اور وہ 2 ٹرکوں کے درمیان پھنس گئے۔

صدام حسین تو کسی نہ کسی طرح بچ گئے، تاہم اس حادثے، پولیس اور عوام کی غفلت اور ہسپتالوں میں سہولیات کے فقدان نے ان کے بڑے بھائی اور 2 معصوم بچوں کے والد قرار حسین کی زندگی چھین لی۔صدام حسین کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں میں تھوڑا سا بھی شعور ہوتا اور ہسپتالوں میں بہتر سہولیات میسر ہوتیں تو ان کا بھائی زندگی کی بازی نہ ہارتا۔

صدام حسین نے بتایا کہ انہوں نے روڈ حادثے کا مقدمہ درج کروایا، تاہم بعد ازاں ان پر پولیس کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن ان کے خاندان نے کسی بھی قیمت پر مقدمہ واپس نہیں لیا۔

اس حادثے نے نہ صرف قرار حسین کی والدہ، بیوہ، بچوں اور ان کے ساتھ زخمی ہونے والے صدام حسین بلکہ ان کی بہنوں اور دوستوں کی زندگی کو بھی شدید متاثر کیا اور وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔

قرار حسین کی ایک بہن آسٹریلیا میں مقیم ہیں، انہوں نے بھائی کے چلے جانے کے بعد سندھ میں روڈ سیفٹی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے اور روڈ حادثات کو رپورٹ کرنے کے لیے فیس بک پر مہم چلائی اور ایک پیج بنایا، جہاں یومیہ پاکستان کے کسی نہ کسی کونے سے روڈ حادثے کی رپورٹ شیئر ہوتی ہے، علاوہ ازیں اس فیس بک پیج پر آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک میں ہونے والے ہولناک حادثات کی رپورٹس کو شیئر کرنے سمیت روڈ سیفٹی کے حوالے سے بھی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسی فیس بک پر شیئر ہونے والے روڈ حادثات کی خبریں اتنی بھیانک ہوتی ہیں کہ پڑھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

قرار حسین کی اپنی بہن کے ساتھ یادگار تصویر—فوٹو: صدف شاہ
قرار حسین کی اپنی بہن کے ساتھ یادگار تصویر—فوٹو: صدف شاہ

گزشتہ 8 ماہ سے اسی پیج پر یومیہ کم سے کم ایک روڈ حادثہ رپورٹ ہوا، جب کہ ہر دوسرے حادثے میں کم سے کم ایک شخص جاں بحق بھی ہوا۔

روڈ حادثات میں مرنے والے افراد کی داستانیں قرار حسین تک محدود نہیں، بلکہ سندھ کے ایسے کئی گھرانے ہیں جہاں اس قسم کے حادثات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے پورا اہل خانہ اذیت کی زندگی گزار رہا ہے۔

ایسے حادثات کا شکار ہونے والوں میں کراچی کا دودھ فروش مولا بخش بھی شامل ہے۔

روڈ حادثے کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے معذور بن جانے والا کراچی کے علاقے بھینس کالونی کا دودھ فروش مولا بخش بھی ایک غیر تربیت یافتہ ڈرائیور کی غفلت کا نشانہ بنا۔

مولا بخش کئی سال سے دودھ فروخت کرکے اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا تھا، تاہم ایک دن جب وہ اپنی موٹر سائیکل پر روڈ کنارے کھڑا تھا کہ بس نے اسے ٹکر ماری اور وہ شدید زخمی ہوگیا۔

مولا بخش کو ہسپتال منتقل تو کردیا گیا، تاہم ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے معذور بن گئے۔

حادثے کی وجہ سے مولا بخش کے مالی مسائل بڑھ گئے اور ان کے بچوں نے اسکول جانا چھوڑ کر 150 سے 250 روپے یومیہ کی بنیاد پر اجرت کرکے گھر کے اخراجات کو چلایا، تاہم علاج کے لیے مولا بخش کو اپنی ملکیت فروخت کرنا پڑی۔

اگرچہ ٖغیر آئے دن سندھ کے کسی نہ کسی شہر سے روڈ حادثے کی خبر سامنے آتی رہتی ہے، تاہم موٹر وے پولیس کے مطابق گزشتہ 2 سال سے سندھ میں روڈ حادثات میں کمی آئی۔

نیشنل ہائی ویز اور موٹر ویز پولیس کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں موٹروے کے زون 5 میں صرف 30 حادثات رپورٹ ہوئے، جب کہ اس سے قبل 2017 میں موٹر وے کے جنوبی زون میں صرف 35 روڈ حادثات ریکارڈ کیے گئے۔

بے ہنگم ٹریفک اور شاہراہوں پر لوگوں کی جانب سے بے خوف چہل قدمی بھی مسائل پیدا کرتی ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک
بے ہنگم ٹریفک اور شاہراہوں پر لوگوں کی جانب سے بے خوف چہل قدمی بھی مسائل پیدا کرتی ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

موٹرویز اور ہائی ویز کے زون 5 پر ایک سال کے اندر روڈ حادثات میں 10 فیصد کمی ہوئی، اس سے قبل بھی 2016 میں 2015 کے مقابلے میں کم حادثات ہوئے تھے، سندھ کے اندر موٹرویز پر 2016 میں 174 حادثات ہوئے تھے۔

تاہم صوبائی حکومت کے زیر انتظام سڑکوں پر حادثات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ان حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ سندھ میں ہونے والے روڈ حادثات صرف غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز اور ان فٹ گاڑیوں کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ سڑکوں کی خستہ حالت، ایک ہی سڑک پر ہر طرح کی گاڑیوں کی آمد و رفت اور شاہراہوں کی طرز تعمیر کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔

سندھ میں جن شاہراہوں پر سب سے زیادہ ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، ان میں ضلع جامشورو کا انڈس ہائی وے سب سے نمایاں ہیں، اس روڈ کا جامشورو سے سیہون تک کا راستہ سندھ بھر میں ’شاہراہ موت‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں یومیہ کم سے کم ایک حادثہ ہوتا ہے۔

جامشورو سے سیہون تک جانے والے روڈ کو شاہراہ موت کے نام سے جانا جاتا ہے—فوٹو: غازی حسین حیدری
جامشورو سے سیہون تک جانے والے روڈ کو شاہراہ موت کے نام سے جانا جاتا ہے—فوٹو: غازی حسین حیدری

جامشورو کے رہائشی عبدالرزاق کے مطابق انڈس ہائی وے پر ہونے والے زیادہ تر روڈ حادثات سڑک کے غلط ڈیزائن کی وجہ سے ہوتے ہیں، کیوں کہ سڑک کے کئی موڑ ایسے ہیں جو آبادی کے بہت قریب بنائے گئے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف سمت سے آنے والی گاڑیاں موڑ کے قریب گھروں اور دیگر عمارتوں کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتیں اور ڈرائیورز کی مخالف سمت سے آنے والی گاڑی پر عین اس وقت نظر پڑتی ہے جب وہ موڑ پر تیز رفتاری سے ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہوتے ہیں۔

عبدالرزاق کے مطابق انڈس ہائی وے پر حادثات کی ایک وجہ سڑک کا ون وے ہونا اور ڈرائیورز کی جانب سے اوور ٹیکنگ اور تیز رفتاری بھی ہے، تاہم زیادہ تر حادثات سڑک کی غلط طرز تعمیر کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جو ڈرائیورز اس روڈ پر پہلی بار گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، زیادہ تر ان کی گاڑیاں ہی حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔

سندھ بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک
سندھ بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

ان کا دعویٰ تھا کہ سندھ بھر میں ہونے والے روڈ حادثات میں سے 40 فیصد حادثات اس سڑک پر ہوتے ہیں اور یہ حادثات خوفناک ہونے کی وجہ سے لوگوں کا بچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

اسی سڑک کے ڈیزائن کے حوالے سے جاننے کے لیے جب نیشنل ہائی وے کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ سڑک کے ڈیزائن میں خرابی ہے۔

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈس ہائی وے پر حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ڈرائیورز تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ یہ سڑک دیگر شاہراہوں کی طرح 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نہیں بلکہ 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بنائی گئی ہے اور زیادہ تر ڈرائیورز کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ اس سڑک پر دیگر شاہراہوں کے مقابلے میں گاڑی کی رفتار کم رکھنی ہے۔

انڈس ہائی وے پر گاڑی کی رفتار 90 کلو میٹر ہے، تاہم ڈرائیورز اس سے زیادہ رفتار میں گاڑیاں چلاتے ہیں—فوٹو: غازی حسین حیدری
انڈس ہائی وے پر گاڑی کی رفتار 90 کلو میٹر ہے، تاہم ڈرائیورز اس سے زیادہ رفتار میں گاڑیاں چلاتے ہیں—فوٹو: غازی حسین حیدری

نیشنل ہائی وے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ سندھ میں موجود باقی تمام نیشنل اور موٹرویز شاہراہوں پر گاڑی کی رفتار 120 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے، تاہم جامشورو سے سیہون جانے والے انڈس ہائی وے پر گاڑیوں کی رفتار 90 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ روڈ سندھ کا وہ واحد روڈ ہے جو اپنی تعمیر کے 21 برس بعد بھی تقریباً اپنی پرانی حالت میں موجود ہے۔

ان کے مطابق اس روڈ کو 1998 میں جاپان کی معاونت سے تیار کیا گیا اور اس کا معائنہ کرنے سمیت اس پر کام کرنے والی تکنیکی ٹیم بھی زیادہ تر غیر ملکی تھی، اس لیے اس روڈ کی تعمیر، ڈیزائن اور معیار پر شک نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس روڈ کے حوالے سے سیفٹی قوانین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس روڈ پر جگہ جگہ روڈ سیفٹی کے بورڈز آویزاں کیے جائیں اور انسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اس شاہراہ پر موٹرے اور ٹریفک پولیس کی چوکیاں بھی بنائی جائیں جو ڈرائیورز اور عام لوگوں میں روڈ سیفٹی سے متعلق شعور اجاگر کریں۔

غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز حادثات کا بڑا سبب ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز حادثات کا بڑا سبب ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

ان کے مطابق اگر یہاں پر ڈرائیور محض 3 سیکنڈز کے لیے بھی گاڑی چلانے کے دوران موبائل فون استعمال کریں گے تو حادثے ہونے کے امکانات 50 فیصد بڑھ جاتے ہیں، کیوں کہ وہ پہلے سے ہی گاڑی کو 120 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلا رہے ہوتے ہیں جو اس سڑک کی مقررہ رفتار سے زیادہ ہے۔

اسی شاہراہ پر آئے دن روڈ حادثات کی وجہ سے سندھ حکومت نے سال 2018 کے وسط سے تعمیراتی کام کا آغاز بھی کیا ہے اور اس شاہراہ کے یوٹرنز کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تاہم نیشنل ہائی وے کے عہدیدار نے اس تعمیراتی کام پر بھی خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ حیران کن طور پر اس روڈ کے تعمیراتی کام کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا ہے، جس کے پاس اچھا تجربہ اور مشینری موجود ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے 2018 کے عام انتخابات میں اس روڈ کی تعمیر کو الیکشن میں آلے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے یہاں پر ہنگامی بنیادوں پر اہلیت نہ رکھنے والی کمپنی سے ہی کام کا آغاز کروایا، جو اس شاہراہ پر حادثات کو روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ اس روڈ سمیت سندھ کے دیگر روڈس پر بھی کچھ مشکلات ضرور ہیں، تاہم زیادہ تر حادثات ڈرائیورز اور عوام کی غفلت کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں اور اس کا ایک سبب لوگوں میں روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین کی معلومات نہ ہونا بھی ہے۔

نیشنل ہائی ویز کے عہدیدار کی طرح سندھ ٹریفک پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا بھی یہی کہنا تھا کہ سندھ بھر میں زیادہ تر حادثات ڈرائیورز اور عوام کی غفلت کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔

سندھ بھر کی شاہراہوں پر بھاری گاڑیوں کی بے ہنگم آمد و رفت بھی حادثات کا سبب بنتی ہے—فوٹو: غازی حسین حیدری
سندھ بھر کی شاہراہوں پر بھاری گاڑیوں کی بے ہنگم آمد و رفت بھی حادثات کا سبب بنتی ہے—فوٹو: غازی حسین حیدری

غیر تربیت اور غیر لائسنس یافتہ ڈرائیورز کی غلفت کا شکار بننے والوں میں صرف قرار حسین اور مولا بخش شامل نہیں ہیں، بلکہ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کے پولیس اہلکار محمد یوسف اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔

محمد یوسف بھی اپنے اہل خانہ سمیت رکشے میں روڈ کنارے کھڑے تھے کہ انہیں ایک منی ٹرک نے ٹکر ماری اور ان کا رکشہ الٹ گیا۔حادثے میں نہ صرف محمد یوسف بلکہ ان کے تمام اہل خانہ شدید زخمی ہوگئے۔

محمد یوسف کے ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، جب کہ ان کے اہل خانہ کی خواتین میں سے ایک کی ریڑھ کی ہڈی جب کہ ایک کی گردن کو اندرونی چوٹیں لگیں اور وہ کئی ماہ تک جناح ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔

محمد یوسف اور مولا بخش تو خوش قسمت تھے کہ وہ حادثے میں زخمی ہوئے، ایسے ہی خطرناک حادثات میں کئی افراد زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔

ٹریفک پولیس کے مطابق صرف کراچی میں ہی 2018 کے دوران 243 روڈ حادثات کے مقدمات درج کیے گئے، جن میں 215 افراد جاں بحق ہوئے۔

اس سے قبل 2017 میں شہر قائد کے اندر 229 روڈ حادثات کے مقدمے درج کیے گئے تھے، جن میں 205 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

صرف کراچی میں ہی 60 فیصد لوگ لائسنس کے بغیر گاڑیاں چلاتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
صرف کراچی میں ہی 60 فیصد لوگ لائسنس کے بغیر گاڑیاں چلاتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

کراچی کے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر (ایس ایم بی بی ٹی سی) کے اعداد و شمار سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، جن کے مطابق صرف 2018 میں ہی ہسپتال میں حادثات کے شکار ہونے والے 35 ہزار 18 افراد لائے گئے۔

اس سے قبل 2017 میں یہاں حادثات کا شکار ہونے والے 27 ہزار951 افراد کو لایا گیا تھا، جس میں سے ہزاروں افراد زندگی بھر کے لیے معذور بن گئے۔

کراچی کے سرکاری ہسپتال جناح کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں حادثات کے ایک ہزار 48 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جس میں سے 942 روڈ حادثات کے تھے، ان حادثات کا شکار ہونے والے 351 افراد ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جاں بحق ہوچکے تھے۔

جناح ہسپتال کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2017 میں 901 روڈ حادثات ریکارڈ کیے گئے، جن میں شکار ہونے والے 283 افراد ہسپتال میں مردہ لائے گئے تھے، ان حادثات میں درجنوں افراد زخمی ہوکر معذور بھی بنے۔

جدید طرز پر بنائے گئے ٹراما سینٹر میں حادثات کے شکار افراد سب سے زیادہ لائے جاتے ہیں—فوٹو: ایس ایم بی بی ٹی سی
جدید طرز پر بنائے گئے ٹراما سینٹر میں حادثات کے شکار افراد سب سے زیادہ لائے جاتے ہیں—فوٹو: ایس ایم بی بی ٹی سی

ہسپتالوں کے بر عکس اگر سماجی تنظیموں کی بات کی جائے تو ان کے اعداد و شمار کچھ اور حقائق بیان کر رہے ہیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں ہی ایک سال کے دوران 781 افراد جاں بحق ہوئے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق اگرچہ وہ سندھ بھر کے اعداد و شمار کی رپورٹ مرتب نہیں کرتے، تاہم کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں سے بھی حادثات کے اتنے ہی کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔

جناح ہسپتال میں بھی سندھ بھر سے زخمی افراد لائے جاتے ہیں—فوٹو: جے پی ایم سی
جناح ہسپتال میں بھی سندھ بھر سے زخمی افراد لائے جاتے ہیں—فوٹو: جے پی ایم سی

ایک اور سماجی تنظیم چھیپا فاؤنڈیشن کے مطابق اگرچہ وہ باضابطہ طور پر روڈ حادثات کی رپورٹ مرتب نہیں کرتے، تاہم وہ یومیہ صرف کراچی سے ہی ایک شخص کو روڈ حادثے میں زندگی کی بازی ہارتے دیکھتے ہیں۔

اسی طرح سندھ بھر میں کام کرنے والی خادمین سندھ فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف انڈس ہائی وے یعنی جامشورو سے سیہون کے درمیان 2018 کے 10 ماہ کے دوران 137 افراد حادثات میں جاں بحق ہوئے۔

خادمین سندھ فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اسی روڈ پر جنوری سے اکتوبر 2018 کے دوران روڈ حادثات میں 1029 افراد زخمی ہوئے اور یہ صرف ایک ہی روڈ کے اعداد و شمار ہیں۔

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی حادثات کا ایک بڑا سبب ہے—فائل فوٹو: ڈان
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی حادثات کا ایک بڑا سبب ہے—فائل فوٹو: ڈان

سندھ ٹریفک پولیس کے مطابق سال 2018 میں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں یومیہ روڈ حادثات میں 3 افراد جاں بحق جب کہ 7 افراد زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہوتے رہے۔

ٹریفک پولیس نے اعتراف کیا کہ کراچی میں 60 فیصد لوگ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ہی گاڑیاں چلاتے ہیں۔

اس سے قبل ٹریفک پولیس کی 2016 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی میں ٹریفک حادثات میں یومیہ 2 افراد جاں بحق جب کہ 5 افراد شدید زخمی ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کراچی میں سالانہ 30 ہزار ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔

ٹریفک پولیس کا ماننا ہے کہ صوبے بھر میں ہونے والے زیادہ تر حادثات انسانی غلطیوں کے باعث ہی ہوتے ہیں۔

انسانی غلطیوں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور ڈرائیورز کا غیر تربیت یافتہ ہونا سب سے بڑی وجوہات ہیں۔

حکومت سندھ اور کراچی چیمبر اور آف کامرس (کے سی سی آئی) کی رپورٹس کے مطابق دارالحکومت میں ہونے والے ٹریفک حادثات کی ایک وجہ غیر تربیت اور غیر لائسنس یافتہ ڈرائیورز بھی ہیں۔

سندھ ٹریفک پولیس کے انسپکٹر ادریس بھٹی کے مطابق دارالحکومت کراچی میں ہونے والے 80 فیصد روڈ حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔

حادثات کی پولیس رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہر روڈ حادثے کی رپورٹ لازمی ہے، تاہم لوگوں میں ایسے حادثات کی رپورٹ درج کروانے کا شعور نہیں۔ ادریس بھٹی کے مطابق اگر کسی حادثے کی رپورٹ متاثرین داخل نہیں کرواتے اور پولیس کو اس کا علم ہوجاتا ہے تو حدود کے تھانے کے پولیس افسر کی مدعیت میں اس کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

سندھ کی کئی شاہراہوں پر دور دور تک کوئی ایمرجنسی اور ریلیف سینٹر موجود نہیں—فوٹو: غازی حسین حیدری
سندھ کی کئی شاہراہوں پر دور دور تک کوئی ایمرجنسی اور ریلیف سینٹر موجود نہیں—فوٹو: غازی حسین حیدری

خطرناک حادثے کی صورت میں پولیس رپورٹ کی وجہ سے متاثر شخص کو بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ ٹریفک پولیس کا ایسا کوئی بھی قانون نہیں ہے، جو کسی انسانی زندگی سے بڑھ کر ہو۔ ادریس بھٹی کے مطابق پولیس کی حتی الامکان یہی کوشش ہوتی ہے کہ زخمی شخص کو سب سے پہلے طبی امداد فراہم کی جائے، جس کے بعد ہی دوسری کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر سندھ بھر میں کہیں کسی ہسپتال کا عملہ زخمی شخص کا علاج کرنے کے بجائے اسے پولیس کیس قرار دے کر اسے طبی امداد فراہم نہیں کرتا تو اس کا قصور وار ہسپتال عملہ ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ ٹریفک پولیس نے کبھی کسی انتہائی تشویش ناک زخمی شخص کا پولیس رپورٹ کے بغیر علاج کرنے پر کسی ہسپتال کی انتظامیہ کو پریشان نہیں کیا اور نہ ہی حادثے کے شکار افراد کے اہل خانہ سے کوئی سوالات کیے ہیں۔

ادریس بھٹی کے مطابق حادثات کی صورت میں سندھ ٹریفک پولیس رپورٹ کے بغیر کسی زخمی کو طبی امداد فراہم کرنے پر کبھی رکاوٹ نہیں بنی، البتہ اگر ایسے کسی واقعے میں کوئی شخص اتفاق سے جاں بحق ہو جاتا ہے، تو بعض اوقات تفتیش کے لیے ہسپتال عملے کو سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم ایسے کیسز کی تفتیش کرتے وقت پولیس کو احساس ہوتا ہے کہ ایسے کیسز میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، البتہ کسی کو زیادہ پریشان کیے بغیر پولیس اپنی تفتیش مکمل کرتی ہے۔

تاہم ہسپتال انتظامیہ پولیس کے اس دعوے کے برخلاف اس بات کی شکایت کرتی نظر آتی ہے کہ اگر انتہائی تشویش ناک حالت میں لایا گیا شخص دوران علاج جاں بحق ہوجاتا ہے تو انہیں پولیس کی جانب سے سخت دباؤ اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

موٹرویز پولیس دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے گزشتہ چند سال سے مناسب اقدامات اٹھائے—فوٹو: این ایچ اینڈ ایم پی
موٹرویز پولیس دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے گزشتہ چند سال سے مناسب اقدامات اٹھائے—فوٹو: این ایچ اینڈ ایم پی

سندھ پولیس، محکمہ ٹرانسپورٹ اور دیگر اداروں کے دعوے اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹریفک حادثات ہونے کے باوجود تاحال انہیں رپورٹ کرنے اور ان کے اعداد و شمار جمع کرنے کے حوالے سے کوئی بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔

روڈ حادثات کو روکنے اور حادثات کے شکار افراد کو بہترین علاج فراہم کرنا تو دور کی بات، سندھ کے ادارے ان حادثات کے درست اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ، محکمہ صحت اور خود ٹریفک پولیس نے بھی صوبے بھر کے روڈ حادثات کو درست انداز میں بر وقت رپورٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں بنایا۔

سماجی اداروں اور کچھ حکومتی اداروں کا ساری توجہ صرف کراچی تک محدود دکھائی دیتی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تاحال حکومت، عوامی ادارے اور شہری روڈ حادثات کی وجہ سے ہونے والی تباہی کو اہمیت نہیں دے رہے۔

اپنے پیاروں کو سڑک پر تڑپتا، سسکتا اور مرتا دیکھنا انتہائی کرب ناک لمحہ ہوتا ہے، بقول ناصر کاظمی۔۔۔

انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں

کسی نہ کسی روڈ حادثے میں اپنے پیارے کو کھونے یا انہیں زندگی بھر کے لیے معذوری کی حالت میں دیکھنے والے متاثرہ افراد نے سندھ بھر میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے حکومت سے سخت انتظامات کرنے سمیت اس بات کا مطالبہ بھی کیا ہے کہ روڈ حادثے کے شکار افراد کے لیے خصوصی طبی منصوبوں کا آغاز کیا جائے اور ایسے حادثات کو بروقت درست انداز میں رپورٹ کرکے واقعات کو سامنے لاکر عوام میں شعور اجاگر کیا جائے۔

سندھ کی کئی شاہراہیں حادثات کے حوالے سے خطرناک سمجھی جاتی ہیں—فوٹو: غازی حسین حیدری
سندھ کی کئی شاہراہیں حادثات کے حوالے سے خطرناک سمجھی جاتی ہیں—فوٹو: غازی حسین حیدری


یہ رپورٹ ابتدائی طور پر پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کے فیلو شپ پروگرام کے لیے تیار کی گئی تھی۔