اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے حکومتی حلقوں نے پہلے کہا تھا کہ ملک میں داعش نہیں ہے تو پھر ساہیوال میں داعش کیسے آئی، عمران خان سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ پوچھ رہی ہے کہ ملک میں داعش ہے یا نہیں؟

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی، سینیٹر رحمن ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں کمیٹی کے اراکین نے سانحہ ساہیوال کی بھرپور مذمت کی۔

اراکین کمیٹی نے سانحہ ساہیوال پر شدید غصے، غم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے واقعے کی انکوائری رپورٹ طلب کر لی، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے معاملے پر تفصیلی بات بھی کی ہے، انہوں نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ میں سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے جبکہ زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: بچوں کو دیکھ کر صدمے میں ہوں، وزیراعظم

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین، سینیٹر رحمٰن ملک نے اجلاس کے دوران کمیٹی کے سامنے سانحہ ساہیوال کا نوٹس پڑھ کر سنایا، اس موقع پر کمیٹی اراکین نے سانحہ کی تفتیش کے لیے بنائے گئے ٹی او آرز پیش کیے۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ آئی جی پولیس و ہوم سیکریٹری پنجاب قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ایک ہفتے میں سانحہ ساہیوال پر جامع رپورٹ پیش کرے، انہوں نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی تفتیش کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا تاکہ مجرموں کو عبرت ناک سزا ملے۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ آئی جی پولیس و ہوم سیکریٹری پنجاب کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے 11 سوالات کے جوابات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتولین و ان کے خاندان کا مکمل پروفائل کمیٹی کو جمع کرایا جائے، کیا مقتولین و خاندان کے خلاف کبھی کسی کی جانب سے کوئی ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی یا نہیں؟

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ کیا مقتولین یا اس کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی تھی یا خاندان کے اندر کوئی تنازع چل رہا تھا؟

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ جب مقتولین نے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس کے کہنے پر سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی تو فائرنگ کیوں کی گئی اور مقتولین کی جانب سے کسی مزاحمت و جوابی فائرنگ کے بغیر کیسے پولیس نے 4 افراد کو قتل کیا؟

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، وزیر اعظم

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 13 سالہ لڑکی کو اس لیے قتل کیا گیا کہ قتل کے عینی شاہد کو ختم کیا جائے؟ کیا مقتولین کے خلاف کوئی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ موجود تھی؟ اور اگر تھی تو کیا تھی؟

سینیٹر رحمٰن ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا مقتولین یا خاندان کا کسی بااثر شخصیت کے ساتھ کوئی تنازع یا دشمنی تو نہیں چل رہی تھی؟ کیا پولیس مقابلہ قانون کے مطابق کسی سینئر پولیس افسر کی زیر نگرانی ہوا؟ اور پولیس مقابلے کے احکامات کسی سینئر پولیس افسر نے دیئے تھے؟

چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ پولیس مقابلہ دن دیہاڑے مین ہائی وے روڈ پر کیسے ہوا کہ جسے دنیا دیکھتی رہی؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، قائمہ کمیٹی کو مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے سارے فوٹیجیز فراہم کرے جبکہ کمیٹی پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کی باقاعدہ تفتیش اور معائنہ کرے گی۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ واقعہ ساہیوال انتہائی افسوسناک، دردناک اور قابل مذمت ہے، اس واقعے سے عوام میں خوف و ہراس اور بے چینی پھیل گئی۔

مزید پڑھیں: ذیشان دہشت گرد نہیں تھا، لواحقین کا وزیرقانون کے بیان پر احتجاج

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اس واقعے کا مکمل و قانونی جائزہ لے گی اور لائحہ عمل تیار کرے گی تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پولیس مقابلے کرنا اور لوگوں کو مارنا قانون کی خلاف ورزی ہے، پولیس مقابلے کی اپنی ایس او پی ہے جس پر عمل در آمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سانحہ ساہیوال

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بچوں کو دیکھ کر صدمے میں ہوں، وزیراعظم

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں