پروین رحمٰن قتل کیس: حکومت کو دھمکیاں دینے والے عناصر کیخلاف کارروائی کا حکم

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2019
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دھمکی آمیز کالز غیر ملکی فون نمبر سے کی جارہی ہیں—فائل فوٹو
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دھمکی آمیز کالز غیر ملکی فون نمبر سے کی جارہی ہیں—فائل فوٹو

اسلا م آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو معروف سماجی رضاکار اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی مقتول ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے اہلِ خانہ اور موجود ڈائریکٹر انور راشد کو دھمکیاں دینے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس عظمت سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمٰن کے قتل کے کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں ان کی ہمشیرہ عقیلہ اسمٰعیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہیں اور پروجیکٹ کے موجودہ سربراہ انور راشد کو دھمکی آمیز کالز کی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم

جس پر جسٹس عظمت سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دھمکی آمیز کالز غیر ملکی فون نمبر سے کی جارہی ہیں لیکن ممکن ہے دھمکیاں دینے والا شخص پاکستانی ہو۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سندھ ڈاکٹر طارق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کابینہ نے معاملہ کے تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی منظوری دے دی ہے اور آئندہ چند روز میں جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

پروین رحمٰن قتل کیس کا پس منظر

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمن 13 مارچ 2013 کو اپنے آفس سے گھر جارہی تھیں کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے منگھوپیر روڈ پر بنارس پل کے پاس ان پر فائرنگ کردی تھی ، جس کے نتیجے میں ان کی گردن پر گولیاں لگی تھیں۔

پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکی تھیں۔

بعدِ ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: ’پولیس کی بدنیتی نے کیس خراب کر دیا‘

یاد رہے کہ 7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اس قتل کے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

رواں برس کے آغاز میں سپریم کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو نوٹس جاری کیا تھا۔

جس کے بعد 22 مارچ کو سندھ پولیس پر مشتمل جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ پروین رحمٰن کے قتل کی سازش میں لینڈ مافیا ملوث تھی کیونکہ وہ گوٹھ آباد اسکیم پر کام کررہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،سپریم کورٹ برہم

ڈپٹی انسپکٹر جنرل ویسٹ زون عامر فاروقی نے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پروین رحمٰن کے قتل میں تحریکِ طالبان کے سنیئر کمانڈر قاری بلال کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔

واضح رہے کہ پروین رحمٰن کے قتل کے اگلے ہی روز 14 مارچ 2013 کو قاری بلال کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں : سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث 5 ملزمان پر فردِ جرم عائد

بعد ازاں 29 مارچ کو 2013 انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس میں نامزد پانچ ملزمان ایاز شمزئی عرف سواتی ، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف پپو کشمیری ، محمد عمران سواتی اور محمدرحیم سواتی پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

کیس میں نامزد ملزمان نے اقرارِ جرم نہیں کیا تھا اور اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کا اختیار چُنا، جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے پروسیکیوشن گواہان کو بیانات قلمبند کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

تاہم 28 جون کو یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ کیس میں ٹرائل کا آغاز نہیں ہوسکا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پولیس گواہان کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔

مزید پڑھیں :’پروین رحمٰن کے قتل میں طالبان نہیں، لینڈ مافیا ملوث تھی‘

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’ مذکورہ کیس میں تقریباً 23 پروسیکیوشن گواہان موجود ہیں لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ان میں سے کوئی بھی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے رضامندی ظاہر نہیں کررہا۔‘

تبصرے (0) بند ہیں