امریکی امداد کی کٹوتی سے فلسطینی متاثر، امن کی امیدیں مزید معدوم ہونے لگیں

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2019
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فلسطینیوں کی 20 کروڑ ڈالر امداد میں کٹوتی کا فیصلہ کیا تھا
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فلسطینیوں کی 20 کروڑ ڈالر امداد میں کٹوتی کا فیصلہ کیا تھا

یروشلم: ہزاروں فلسطینی اب امریکا سے خوراک کی امداد یا بنیادی صحت کی سہولیات مزید حاصل نہیں کرسکیں گے، ساتھ ہی امریکی امداد سے چلنے والے انفرااسٹرکچر منصوبوں کو بھی روک دیا گیا جبکہ یروشلم میں امن کے قیام کے لیے ہونے والے پروگرام کی سرگرمیاں بھی مزید جاری نہیں رہیں گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس فلسطینیوں کے لیے 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی ترقیاتی امداد کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس نے این جی اوز کو اپنا پروگرام بند کرنے اور اسٹاف کو کم کرنے پر مجبور کردیا۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت کی ڈیولپمنٹ ایجنسی یو ایس ایڈ نے 1994 سے انفرااسٹرکچر، صحت، تعلیم، گورننس اور انسانی امداد کے پروگرامز کے لیے فلسطینیوں کو ساڑھے 5 ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے فلسطینیوں کیلئے امداد میں 20 کروڑ ڈالر کی کٹوتی کردی

اس امداد کو زیادہ تر بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے فراہم کیا جاتا تھا اور گزشتہ موسم گرما میں اس میں کٹوتی کے بارے میں اچانک آگاہ کیا گیا تھا، جس نے انہیں اپنے پروگرام کو برقرار رکھنے کے لیے پریشان کردیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یو ایس ایڈ میں کٹوتی کا مقصد فلسطینیوں پر دباؤ ڈال کر دوبارہ امن مذاکرات کی طرف لانا ہے لیکن فلسطینی حکام کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد یہ اقدام تعلقات مزید تلخ کردے گا۔

دوسری جانب زیادہ امدادی گروپس جن کا فلسطینی انتظامیہ سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہیں وہ کہتے ہیں امداد میں کٹوتی سب سے زیادہ کمزور فلسطینیوں اور ان لوگوں جو اسرائیل کے ساتھ امن چاہتے ہیں، انہیں متاثر کرے گی۔

اس حوالے سے 1995 میں فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والی بین الاقوامی این جی گلوبل کمیونیٹرز کی مقامی ڈائریکٹر لانا ابو حجلہ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ امن عمل کے خیال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایسے لوگوں کو برقرار رکھنا ہوگا جو امن عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی امداد نہ ملنے کے باوجود فلسطینی اسکول کھل گئے

امداد کی کٹوتی کے اعلان سے قبل اسرائیلی کے قبضے میں موجود مغربی کنارے اور غزہ میں ایک لاکھ 80 ہزار فلسطینیوں کو عالمی خوراک پروگرام کے ذریعے امریکی لوگوں کی جانب سے فراہم کی گئی کھانے پینے کی اشیا بطور تحفہ پیش کی گئیں۔

خیال رہے کہ یو ایس ایڈ کا منصوبہ تھا کہ وہ آئندہ 5 سال کے لیے ہر سال ایک کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی امداد جاری رکھے گا تاہم بعد ازاں اگست میں وہ اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ عمل بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ آپ بہت ہی بنیادی سطح کی امداد کی بات کر رہے ہیں اور وہاں ایک خاندان تقریباً 130 ڈالر کا واؤچر حاصل کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں