ایف ایس اعجازالدین مصنف ہیں۔
ایف ایس اعجازالدین مصنف ہیں۔

سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز کے چیئر پرسن ظہیرالدین کو پاکستان کا بہادر ترین انسان قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی فلم ’دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘ کو سینٹرل بورڈ نے ریلیز کی اجازت دے دی، تاہم اس کے پہلے شو کی تاریخ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بالکل اگلے دن یعنی 18 جنوری رکھنے میں کافی ہوشیاری نظر آتی ہے۔

اگر اس سے 24 گھنٹے پہلے شو رکھا جاتا تو شاید رخصت ہوتے چیف جسٹس کی عدالتی برہمی برداشت کرنا پڑجاتی، جنہوں نے گزشتہ سال اکتوبر میں ہمارے پاکستانی ٹی وی چینلوں پر ہندوستانی مواد کی نشریات پر دوبارہ پابندی عائد کردی تھی۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے کہا کہ، ’وہ ہمار ے ڈیم (کے تعمیراتی کام) میں رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم کیا ان کے چینلز پر پابندی بھی عائد نہیں کرسکتے؟‘

فلم کی ریلیز کی تاریخ بھی ’ایکسیڈینٹل‘ (حادثاتی) تھی۔ لاہور میں فلم کی پہلی نمائش میں، فلم کے اشتہارات میں ‘حادثاتی جرم‘ کی گمراہ کن داستان تھی۔ پہلی نمائش دیکھنے پختہ عمر کے 7 افراد پہنچے تھے، جن کی اس طرح کے ہندوستانی پروپیگنڈا سے ذہن سازی ممکن ہی نہیں تھی۔

یہ فلم سنجے بارو کی اشتعال انگیز کتاب ’دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر: دی میکنگ اینڈ ان میکنگ اف من موہن سنگھ (2014)‘ پر مبنی ہے۔ سنجے بارو اس کتاب کو لکھنے کی پوری اہلیت بھی رکھتے ہیں کہ وہ 2004ء سے لے کر 2008ء تک، 4 برس ڈاکٹر سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر رہے۔

بارو نے ڈاکٹر من موہن سنگھ (جو اب اقتدار سے باہر ہیں) کو ایک ایسی کٹھ پتلی کے طور پر پیش کرنا چاہا ہے، جس کی ڈوریں انڈین نیشنل کانگریس کی حقیقی رہنما شری متی سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہیں۔ من موہن سنگھ کی جو عکاسی بارو نے اپنی کتاب میں پیش کی ہے اسے انوپم کھیر نے اپنی اداکاری کے ذریعے نمایاں انداز میں پیش کیا ہے۔

انوپم کھیر ویسے تو ایک متحرک اور اثر انگیز اداکار ہیں لیکن انہوں نے ڈاکٹر سنگھ کو حد سے زیادہ لچک دار شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے، جیسے کہ وہ تقریباً آٹسٹک ہیں اور جس کی چال روبوٹ نما ہے۔ اگر انوپم کھیر کی کردار نگاری کو درست مان لیا جائے تو آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شری متی سونیا گاندھی کو سخت بانس بننے کی ضرورت کیوں پڑی، جس پر انہوں نے ڈاکٹر سنگھ کی وزارت عظمیٰ کا پرچم ہوا میں بلند کیا تھا۔

مگر جو لوگ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو جانتے ہیں وہ ان کی اس کردار نگاری کو درست قرار نہیں دیں گے۔ مسلسل 2 بار 5 سالہ مدت پوری کرنے والے وزیرِاعظم بننے سے قبل وہ ایک ممتاز کیریئر رکھتے تھے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم پھر (1972ء سے 1976ء تک) چیف اقتصادی مشیر رہے، (1982ء سے 1985ء تک) ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رہے، (1985ء سے 1987ء تک) پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین رہے اور پھر سابق بھارتی وزیرِاعظم نرسمہا راؤ کی حکومت میں وزیرِ خزانہ بنے۔

وزیرِاعظم راؤ نے ہندوستانی معیشت کو آزادانہ حیثیت دینے کے لیے انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ڈاکٹر سنگھ نے بالکل ویسی دُور اندیشی اور کھلے ذہن کی اقتصادی پالیسیوں کے ساتھ ہندوستانی معیشت میں نئی روح پھونکی جنہیں ڈنگ ژیاؤ پنگ نے چین میں زبردست کامیابی کے ساتھ حاصل کیا تھا۔ (ڈاکٹر سنگھ نے ڈنگ ژیاؤ پنگ کے اس مشورے پر بھی عمل کیا کہ، ’دماغ ٹھنڈا رکھو اور اپنا پروفائل لو ہی بنائے رکھو۔ رہنما بننے کی کوشش کبھی مت کرو مگر اپنا مقصد بڑا رکھو۔‘)

2004ء میں سونیا گاندھی اور ان کی کانگریس پارٹی کی سربراہی میں بننے والے سیاسی اتحاد یونائٹڈ پروگریسو الائنس کی جیت کے بعد، ڈاکٹر سنگھ کو محسوس ہوا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے بطور 13ویں وزیرِاعظم اپنے ملک کی 10 سال خدمت کی اور اس دوران وہ امریکی جوہری معاہدے اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات جیسے معاملات پر سونیا گاندھی کی مداخلت اور پھر سنجے بارو جیسے قابلِ اعتبار لوگوں کی بے وفائی کو صبر کے ساتھ سہتے رہے۔

بارو بروٹس جیسی خوبیاں رکھنے والے گروہ کا حصہ ہیں جو آپ کو پورے برِصغیر میں مل جائیں گے۔ جو پنڈت نہرو کے پاس ایم او متھائی کی صورت میں تھا، وہ ان کا 13 سال پرنسپل سیکریٹری رہا۔ اندرا گاندھی کے پاس وی سی شکلا کی صورت میں تھا۔ صدر ایوب خان نے اپنا بروٹس الطاف گوہر کی صورت میں پایا اور ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا کوثر نیازی کی صورت میں۔ تمام سیاستدانوں کو ایک ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی آواز ان کی اپنی آواز سے زیادہ گونجتی ہو، مگر یہ گونج اس وقت مدھم ہوجاتی ہے جب کرایہ کی آواز اپنی ہی پسند کا راگ الاپنے لگ جاتی ہیں۔

ہندوستان میں کچھ لوگوں کو شک ہے کہ دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بنوائی ہے تاکہ شری متی سونیا گاندھی کی ’پلو سے بندھی‘ طرزِ حکومت کا انکشاف کیا جاسکے۔ ان کے بیٹے راہول گاندھی یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں کہ وہ بالارادہ (intentional) وزیرِاعظم بن سکتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ قیادت کی باگ ڈور ملنا ریورس ورٹیکل اوسموسس (پانی صاف کرنے کا ایک نظام) کی ایک دلچسپ مثال پیش کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی گاندھیاتی بلندی سے ڈوبتے ہوئے سیکھا ہے اور اب ان کا مقصد ہے اپنے نہرو-وی ورثے کو بحال کرنا۔ کیا انہوں نے ڈنگ ژیاؤ پنگ کی وارننگ بھی پڑھ رکھی ہے؟ جو کچھ یوں ہے کہ ’نوجوان رہنما طبقے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اونچائیوں پر پہنچے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ زینہ بہ زینہ بلندی کا سفر کریں۔‘

پاکستان میں یہ فلم ہماری اپنی سیاسی صورتحال کا ایک دلچسپ عکس پیش کرتی ہے۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہم یہاں منتخب، سلیکٹڈ، حادثاتی، غیر ارادی، جذباتی وزرائے اعظم اور زیبائشی وزرائے اعظم دیکھ چکے ہیں؟ یہ فلم ایک تاکیدی کہانی ہے جو ہماری جیسی ظاہری جمہوریتوں کو وارننگ دیتی ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی حکمرانی کے تجربات سے باز رہیں۔

ڈنگ ژیاؤ پنگ اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی طرح ہمارے وزیرِاعظم عمران خان خود کو ایک دانا اصلاح کنندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ابھی تک وہ ایڈورڈ گبن کے آدھے مشورے پر عمل پیرا ہوئے ہیں کہ، ‘اصلاح کنندہ کو مفادات کے شکوک و شبہات سے آزاد ہونا چاہیے۔‘ تاہم انہیں ابھی بقیہ آدھے مشورے پر کام کرنا باقی ہے کہ ’اور اسے ان لوگوں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنا ہوگا جن کی وہ اصلاح کرنا چاہتا ہے۔‘

تبصرے (0) بند ہیں