نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قرار

24 جنوری 2019
نقيب اللہ سميت ديگر مقتولين کے خلاف دہشتگردی اور  اسلحہ بر آمدگی کے پانچ مقدمات درج کیے تھے جو عدالت نے ختم کرنے کا حکم ديا ہے۔ فائل فوٹو: فیس بک اکاؤنٹ
نقيب اللہ سميت ديگر مقتولين کے خلاف دہشتگردی اور اسلحہ بر آمدگی کے پانچ مقدمات درج کیے تھے جو عدالت نے ختم کرنے کا حکم ديا ہے۔ فائل فوٹو: فیس بک اکاؤنٹ

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے خلاف پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دے دیا۔

عدالت نے مقتولين کے خلاف درج مقدمات بھی ختم کرنے کا حکم دیا۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے جمعرات کو تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کو ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے ان افراد کے خلاف درج 5 مقدمات ختم کرنے کی رپورٹ منظور کرلی۔

عدالت نے نقیب اللہ محسود کے قتل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ پر دیے گئے فیصلے میں رپورٹ کو کا حوالہ دیا کہ نقیب اللہ، صابر، نذر جان، اسحٰق کو داعش اور لشکر جھنگوی کا دہشت گرد قرار دے کر ویران مقام پر قتل کیا گیا۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انکوائری کمیٹی اور تفتیشی افسر نے جائے وقوع کا معائنہ کیا، اس دوران انہیں پولٹری فارم میں نہ ہی گولیوں کے نشان ملے جبکہ دستی بم پھٹنے کے بھی کوئی آثار واضح نہیں ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق حالات و واقعات اور شواہد کی روشنی میں یہ مقابلہ خودساختہ، جھوٹا اور بے بنیاد تھا، راؤ انوار اور اس کے ساتھی جائے وقوع پر موجود تھے جبکہ نقیب اللہ اور چاروں افراد کو کمرے میں قتل کرنے کے بعد اسلحہ اور گولیاں ڈالی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘

نقيب اللہ قتل کيس ميں مدعی کے وکيل صلاح الدين پنہور کا کہنا تھا کہ رائو انوار کے سب دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔

صلاح الدين کا کہنا تھا پوليس نے نقيب اللہ سميت ديگر مقتولين کے خلاف دہشتگردی اور اسلحہ بر آمدگی کے پانچ مقدمات درج کیے تھے جو عدالت نے ختم کرنے کا حکم ديا ہے۔

خیال رہے کہ فروری 2018 میں سابق تفتیشی افسر عابد قائم خانی نے نقیب اللہ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج مقدمات سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ نقیب اور اس کے ساتھیوں کا مقابلہ بالکل جھوٹ تھا۔

تاہم راؤ انوار نے مقابلے کے بعد نقیب اللہ سمیت دیگر کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور مقتولین کے خلاف 5 مقدمات درج کیے گئے تھے۔

پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کی تھیں اور رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی، جس میں ان مقدمات کو ختم کرنے کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔

نقیب اللہ قتل کیس

13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا، جنہیں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کے والد کا جج پر عدم اعتماد، مقدمہ منتقل کرنے کی درخواست

تاہم نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کیلئے جیل میں بی کلاس منظور

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئی تھیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پیش ہونے کا موقع بھی دیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ڈرامائی انداز میں عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں یہ کیس کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی، جس پر عوام کی جانب سے کافی اعتراض بھی اٹھایا گیا تھا۔

عدالت میں زیر سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں