فنانس بل کی نئی شق پر تنازع

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2019
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک شہری جس کا انکم ٹیکس آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں اس پر الزام لگایا جارہا ہے
 فائل فوٹو۔۔۔۔ڈان نیوز
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک شہری جس کا انکم ٹیکس آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں اس پر الزام لگایا جارہا ہے فائل فوٹو۔۔۔۔ڈان نیوز

اسلام آباد: فنانس بل میں ایک نئی شق پر تنازع سامنے آگیا جس کے مطابق ظاہر نہ کی گئی اوورسیز جائیدادوں پر ٹیکس حکام نوٹس جاری کریں گے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم پر اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے سنگین نوعیت کے اعتراضات اٹھائے گئے جبکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ’علیمہ ٹیکس‘ کے نام سے اصطلاح نے بھی مقبولیت حاصل کی۔

اس حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک شہری جس کا انکم ٹیکس آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں اس پر الزام لگایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’علیمہ خانم کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں، یہ سارے جھوٹے الزامات ہیں، علیمہ خانم سے منی ٹریل طلب کی گئی تھی جو انہوں نے عدالت کو دے دی، انہیں جرمانہ ادا کرنے کا کہا گیا تھا انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) میں رقم جمع کرادی‘۔

مزید پڑھیں: فنانس بل میں گناہ ٹیکس کا ذکر نہ ہونے پر شعبہ صحت کے حکام مایوس

ان کا کہنا تھا کہ ’اہم ترین بات یہ ہے کہ ہماری طرف سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ فوج ان کے خلاف سازش کر رہی ہے یا جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لیے یہ کام کیا گیا اور نہ ہی کسی نے عدالت سے حقائق چھپانے کی کوشش کی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب انہوں نے جرمانہ ادا کردیا ہے تو کیا جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے، نہیں‘۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’یہ بجٹ ظاہر نہ کیے گئے آف شور اثاثوں کے لیے ایمنسٹی کی شقوں سے بھرا ہوا ہے، کوئی انعام نہیں بتانے پر کہ یہ (بل) کس کی خدمت کرے گا، سینیٹ اب بھی کام کر رہی ہے‘۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بجٹ کے پیش ہونے کے فوراً بعد ہی کہا تھا کہ یہ تمام کام علیمہ خانم کے ظاہر نہ کیے گئے اثاثوں کو بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’علیمہ باجی ٹیکس چور ہیں اور اسی لیے یہ فنانس بل لایا گیا، اس اسکیم کا مقصد عمران خان کے ظاہر نہ کیے گئے اوورسیز اثاثوں کو ریگولرائز کرنا ہے۔

ابتدائی طور پر سرکاری سطح پر جواب وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر نے دیا تھا۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ ترمیم ایمنسٹی اسکیم نہیں، بلکہ حقیقت میں اس کے برعکس ہے، اس سے ایف بی آر کو آف شور اثاثوں کے کیسز میں ٹیکس چوری کی جانچ پڑتال میں مزید مدد ملتی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’منی لانڈرنگ یا اسمگلنگ کے لیے موجودہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کسی مالیاتی ادارے کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے، وزیر خزانہ

انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 123 (1) انکم ٹیکس کمشنر کو گزشتہ ٹیکس سال میں چھپائے گئے اثاثوں کے حوالے سے پروویژنل اسسمنٹ آرڈر جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

ترمیم کو سیکشن 123 میں شق 1 اے میں کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کمشنر، محکمہ یا وفاقی حکومت کی ایجنسی یا صوبائی حکومت کی جانب سے کسی بھی شخص کے ظاہر نہ کیے گئے اثاثوں کے بارے میں معلوم ہوا تو کمشنر کسی بھی وقت اسسمنٹ آرڈر جاری کرنے سے قبل مذکورہ شخص کے گزشتہ ٹیکس سال کے پروویژنل اسسمنٹ آرڈر جاری کرے گا۔

ایف بی آر کے رکن ڈاکٹر حامد عتیق کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس قوانین میں اضافے کا مقصد غیر ملکی جائیدادوں کو ایف بی آر کے اندر جمع کرنا تھا، جب ترمیم منظور کرلی جائے گی تو ایف بی آر کو ٹیکس نوٹس بھیجنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز بینک اکاؤنٹ اور جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرنا قانونی طریقے سے ممکن ہوگیا ہے اور اب جس کے خلاف ٹیکس چوری کا نوٹس بھیجا جائے گا اس کے خلاف ہم کسی بھی ملک کو بینک اکاؤنٹ بند کرنے اور جائیدادوں کو فروخت کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں