اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں نہیں آئے گا تو قائد ایوان بھی نہیں آئے گا، مسلم لیگ (ن)

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2019
ٹوئٹ کی زبان استعمال کرکے دھمکیاں دی گئیں، پارلیمنٹ اور اسپیکر کا احترام تک نہیں کیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
ٹوئٹ کی زبان استعمال کرکے دھمکیاں دی گئیں، پارلیمنٹ اور اسپیکر کا احترام تک نہیں کیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر منسوخ کیے جانے کے عندیے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قائد حزب اختلاف ایوان میں نہیں آئے گا تو پھر قائد ایوان بھی نہیں آئے گا۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن سب سے محترم نظام اور ادارے ہیں، اگر پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں یہ ماحول رکھنا ہے تو ہم تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹوئٹ کی زبان استعمال کرکے دھمکیاں دی گئیں، پارلیمنٹ اور اسپیکر کا احترام تک نہیں کیا گیا، ماضی میں بھی انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا اب اگر حکومت میں رہتے ہوئے انہوں نے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کرنا تو یہ معاملہ نہیں چل سکے گا۔

مزید پڑھیں: پروڈکشن آرڈر کا معاملہ، حکومت کی 2 اتحادی جماعتیں اپوزیشن کی 'ہمنوا'

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ٹوئٹ کرنے والوں کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ حکومت چلتی رہے لیکن نمبر بڑھانے کے لیےیہ لوگ گالم گلوچ کرتے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پارلیمنٹ عوام کے سامنے مذاق بنے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ فعال رہے لیکن اگر یہ راستہ اپنایا گیا تو ہم اسی راستے پر جانے کو تیار ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 6 ماہ کے بعد وزیر اعظم ایوان میں آئے اور ناراض ہوکر چلے گئے، ہم تو ان کا تلاش گمشدہ کا اشتہار دینے لگے تھے کہ وہ اچانک خود آگئے اور میرا خیال ہے کہ ایوان میں بیٹھنا ان کی مزاج پر گراں گزرا ہے، آگے آگے دیکھیں تبدیلی والے بھی بھگت لیں گے۔

اس موقع پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم میں لکھا ہوا ہے جو اس کا استعمال کرے گا اس سے سوال ہوگا لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ سیاسی طور پر بے نقاب لوگ اس کا استعمال نہیں کریں گے اور اگر ایمنسٹی کے بعد بھی کوئی اکاؤنٹس یا جائیداد سامنے آتی ہے تو اس کی کڑی سزا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنی ’باجی صاحبہ‘ کے لیے یہ حکم جاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ پہلے سے ایف بی آر کے قانون سے متعلق پاس ہونے والے فنانس بل میں موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی حکومت ہے جو فنانس بل پاس کرکے گھر چلی گئی، اس پر کوئی بحث نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری، اے پی سی کی صدارت کریں گے

انہوں نے کہا کہ حکومت نے قومی اسمبلی میں پہلا بل پاس کیا ہے یہ ججز کی تعداد بڑھانے کا بل تھا لیکن صوبائی کوٹے کے بارے میں کوئی جواب نہیں آیا، ہم چاہتے تھے جو شخص بھی ہائی کورٹ کا جج بننے آرہا ہے وہ اپنے اثاثے ظاہر کرے، تاہم بدقسمتی سے حکومتی بینچ نے اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ ٹیکس چور بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج بن سکتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے 3 ٹوئٹ کیے ہیں، جس میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزشین کو دھمکی دی گئی ہے، حکومت پارلیمنٹ کو دھمکیاں دے رہی ہے، اسپیکر اسمبلی کو بتا دیا ہے کہ اراکین کا تحفظ آپ نے کرنا ہے، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ اگر اپوزیشن لیڈر اسمبلی میں نہیں آئے گا تو پھر لیڈر آف دی ہاﺅس (قائد ایوان) بھی نہیں آئے گا۔

لیگی رہنما نے کہا کہ نعیم الحق کی کوئی حیثیت نہیں ، جب معاون خصوصی بولتا ہے تو سمجھیں وزیراعظم بولتا ہے، تاہم ہمیں اسپیکر نے معاملے پر نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں